جب ہمسایہ کی دیوار لرزے تو بنیادیں مضبوط کرنا پڑتی ہیں ۔ہم نہیں چاہتے کہ ایران کمزور ہو۔ ہم دعا گو ہیں کہ وہ محفوظ رہے، متحد رہے، مضبوط رہے۔ مگر اگر خدا نخواستہ، تاریخ کا وہ ناخوشگوار باب کھلتا ہے، جو شام، عراق اور لیبیا میں کھل چکا ہے تو ہمیں آج سے ہی کل کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
ایرانی ریاست کے کمزور ہونے کی صورت میں سب سے پہلا خطرہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر نمودار ہوگا۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ایک "مسلکی خطرہ” ہے، وہ معاملے کو آدھا دیکھ رہے ہیں۔ اصل خطرہ "غیر ریاستی خالی جگہ” (ungoverned space) ہے جہاں ریاست نہیں ہوگی، وہاں بندوق ہوگی، بیرونی ہاتھ ہوگا، اور شاید وہ پرچم بھی جسے دشمن ہمارے خلاف اٹھانا چاہتے ہیں۔
اور سب سے نازک اور کمزور مقام؟ سیستان و بلوچستان۔ ایران کا وہ صوبہ جو جغرافیائی لحاظ سے پاکستان سے جڑا ہوا ہے، لسانی و نسلی طور پر بلوچ شناخت رکھتا ہے، اور جہاں ایران کی مرکزی حکومت کے خلاف پہلے ہی کئی گروہ ناراض بیٹھے ہیں۔
یاد رکھیں، شام میں بھی کرد علاقے شروع میں خانہ جنگی کا براہ راست حصہ نہ تھے۔ مگر جیسے جیسے دمشق کی گرفت کمزور ہوئی، وہ علاقے خودمختار ہونے لگے۔ اور وہاں "کرد نیشنلزم” کے نام پر جو بھی بنا، وہ ترکی کے لیے ایک مسلسل دردِ سر بن گیا۔ ترکی نے اس صورت حال کو نظرانداز نہیں کیا۔ وہ فوراً شمالی شام میں داخل ہوا، فوجی آپریشن کیے، اور ایک واضح حکمتِ عملی کے تحت وہاں بفر زون (buffer zone) قائم کیا۔ اس کا مقصد یہی تھا: وہاں کسی ایسی حکومت یا ملیشیا کو پنپنے نہ دیا جائے جو بعد میں ترکی کے اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائے۔
پاکستان کو بھی اسی ترکی ماڈل سے سیکھنا ہوگا۔
ترکی نے کیا کیا؟
جب شام میں خانہ جنگی نے شدت اختیار کی، اور کرد ملیشیا (YPG/SDF) نے امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی میں شمالی شام میں اپنی خودمختاری کا اعلان کیا، تو ترکی کے لیے یہ براہِ راست خطرہ تھا۔ کیونکہ YPG کا تعلق ترک مخالف تنظیم PKK سے بھی جُڑا ہوا سمجھا جاتا تھا، جو ترکی میں دہائیوں سے علیحدگی پسند بغاوت کی نمائندگی کرتی ہے۔
ترکی نے یہ خطرہ صرف بیانات سے نہیں، بلکہ ٹھوس زمینی اقدامات سے روکا:
- اس نے شام کے شمالی علاقوں میں عسکری آپریشنز کیے: فرات شیلڈ، اولیو برانچ، اور پیس اسپرنگ۔
- ان آپریشنز کا مقصد تھا سیاسی و عسکری بفر زون بنانا تاکہ نہ صرف دہشت گردی روکی جا سکے بلکہ شامی مہاجرین کی واپسی کے لیے محفوظ علاقے بن سکیں۔
- ترکی نے مقامی سنی عرب آبادی کو گورننس اور مقامی کونسلز کے ذریعے بااختیار بنایا تاکہ دہشت گرد گروہوں کو مقامی حمایت نہ مل سکے۔
- اس نے سوچی معاہدے کے تحت روس اور ایران سے تزویراتی رعایتیں حاصل کیں تاکہ ادلب جیسے علاقوں میں شامی اپوزیشن کو جگہ دی جا سکے۔
سیستان کی کمزوری، بلوچستان کی حساسیت
اگر خدانخواستہ ایرانی ریاست کمزور ہوتی ہے اور سیستان و بلوچستان میں طاقت کا خلا پیدا ہوتا ہے، تو پاکستان کے پاس دو آپشنز ہوں گے:
یا تو صرف بارڈر بند کر کے تماشائی بنے رہیں،
یا پھر پیشگی حکمت عملی کے ساتھ وہاں ایک سیکورٹی بفر بنائیں۔
ایسا زون جو نہ ایران دشمن ہو، نہ پاکستان مخالف، بلکہ ایک مقامی، نیم خودمختار، مگر پاکستانی مفاد کا نگہبان علاقہ ہو۔ جہاں کے قبائل، سردار، مقامی گروہ پاکستان کے ساتھ ہوں۔
اس سیاق میں ہمیں اپنے بلوچستان کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بلوچستان، جو خود پاکستان کے لیے عشروں سے ایک حساس اور زیرِ توجہ علاقہ رہا ہے، سیستان کی غیر یقینی صورتِ حال میں براہِ راست متاثر ہوگا۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ سیستان کا عدم استحکام صرف سرحد پار شورش نہیں لائے گا بلکہ بلوچستان کے ان علاقوں میں بھی حرارت پیدا کرے گا جہاں پہلے ہی علیحدگی پسند بیانیے، ناراض قبائل، یا ریاست سے فاصلہ رکھنے والے گروہ موجود ہیں۔
یہاں بھی ہمیں ترکی کی حکمت عملی سے سیکھنا ہوگا۔ ترکی نے شمالی شام میں صرف عسکری کارروائی پر انحصار نہیں کیا بلکہ مقامی سطح پر سیاسی نظم تشکیل دیا۔ مخالف گروہوں میں نرم لہجے والے عناصر کو ساتھ ملایا، عوامی خدمات کا دائرہ بڑھایا، اور لوکل گورننس، مقامی پولیس، اور عدالتی نظام جیسے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کیا۔
پاکستان کو بھی چاہیے کہ اگر حالات اس نہج پر جاتے ہیں، تو سیستان و بلوچستان میں صرف فوجی حکمت عملی پر نہ چلے بلکہ بلوچ شناخت، مقامی سرداروں، اور قبائلی ڈھانچوں کو اعتماد دے کر ایک علاقائی سیاسی انتظام کے قیام کی کوشش کرے—ایسا نظم جو نہ صرف وہاں کے لوگوں کو خارجی استحصال سے بچا سکے بلکہ بلوچ عوام کے دلوں میں پاکستان کے لیے نئی قربت پیدا کرے۔
خلا کو کوئی نہ کوئی بھرتا ہے
جب خلا بنتا ہے، تو اسے کوئی نہ کوئی پُر کرتا ہے۔ اگر ہم نے نہیں کیا، تو وہ قوتیں ضرور کریں گی جن کے ایجنڈے میں پاکستان کو کمزور کرنا لکھا ہے—چاہے وہ بھارت ہو، اسرائیل ہو، مغربی خفیہ نیٹ ورک ہوں یا داؑش جیسے فتنہ پرور گروہ۔
یہ منظرنامہ صرف خطرہ نہیں بلکہ موقع بھی ہے۔ اگر پاکستان بروقت اور توازن سے کام لے تو سیستان میں ایک دوستانہ، غیرمتعصب اور مستحکم قیادت ابھر سکتی ہے جو نہ صرف دشمن قوتوں کے خلاف بفر زون ہو بلکہ پاک-ایران تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کا ذریعہ بھی بنے۔
نتیجہ: تدبر، وقت سے پہلے
ایران کی ریاستی کمزوری، خدانخواستہ، پورے خطے کے لیے بھونچال بن سکتی ہے۔ پاکستان اگر محض بیانیہ کی حد تک محدود رہا تو دیر ہو جائے گی۔ ترکی نے ثابت کیا کہ عسکری، سیاسی اور سفارتی محاذ پر توازن رکھ کر دشمنوں کی شطرنج پر اپنی چالیں بھی کھیلی جا سکتی ہیں۔
پاکستان کو اسی جذبے، تدبر، اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ورنہ جب گرد بیٹھے گی، تب ہاتھ ملنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
