turky-urdu-logo

بھارت اسرائیل تعلقات کا ایک تاریخی جائزہ

آج بھارت اور اسرائیل کے تعلقات نہایت گہرے ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کے بعد، بھارت اسرائیل کا سب سے بڑا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ بھارت محض اسرائیلی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہی نہیں، بلکہ "آفسیٹ معاہدوں” کے ذریعے بھارت اسرائیل کے لیے ہتھیار تیار کرنے والا ملک بھی بھارت ہی ہے۔ آئیے بھارت-اسرائیل تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

بھارت نے اسرائیل کو 1950 میں باضابطہ طور پر تسلیم کیا، مگر اس وقت مکمل سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے گئے تھے۔ تسلیم کیے جانے کے باوجود بھارت نے کئی دہائیوں تک اسرائیل کے ساتھ کھلے عام سفارتی، دفاعی یا تجارتی تعلقات بنانے سے گریز کیا۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت کی اُس وقت کی خارجہ پالیسی تھی جو غیر وابستہ تحریک (Non-Aligned Movement)، عرب ممالک کی حمایت، اور فلسطینی تنظیم پی ایل او سے تعلقات تھے۔

بھارت اور اسرائیل کے درمیان فوجی تعاون کی ابتدا عراق کے نیوکلر پروگرام کی تباہی کے فورا بعد شروع ہوئی تھی۔ اسرائیل نے 7 جون 1981 کو "آپریشن اوسیرک بابل” کے نام عراق پر فضائی حملہ کیا تھا۔ جس میں اسرائیلی فضائیہ نے عراق کے اوسیرک (Osirak) نامی فرانسیسی ساختہ جوہری ری ایکٹر کو بمباری کرکے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ یہ ری ایکٹر بغداد سے تقریباً 17 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا اس حملے میں 10 عراقی فوجی اور ایک فرانسیسی انجینئر ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیل نے اس حملے کو "خود دفاع” کا اقدام قرار دیا تھا۔

عراق پر اس حملے کی کامیابی کے بعد، بھارت اور اسرائیل کے درمیان پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کے حوالے سے ایک خفیہ مشترکہ آپریشن کی اطلاعات بین الاقوامی میڈیا اور چند خفیہ رپورٹوں میں سامنے آئیں تھیں۔ "آپریشن اوسیراک” کے ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے، 1980 کی دہائی کے وسط میں دونوں ممالک نے پاکستان کے "کہوٹہ نیوکلیئر پلانٹ” کو نشانہ بنانے کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا تھا۔ بعد میں جس کی تفصیلات معروف امریکی تحقیقاتی صحافی "سیمور ہیرش (Seymour Hersh)” نے 1991 میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے لائیں تھیں۔

 رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ "اسرائیل اور بھارت نے "کہوٹہ نیوکلیئر پلانٹ” کو مشترکہ طور پر تباہ کرنے کے لیے بھارتی "RAW” اور اسرائیلی "موساد” کے درمیان خفیہ انٹیلیجنس شیئرنگ کی بنیاد پر منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ کے F-16 طیاروں کو بھارت کے اندر کسی ائیر بیس (متوقع طور پر سرینگر ائیر بیس) پر لینڈ کرانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، تاکہ وہ پاکستان کے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کر سکیں۔ حملے کے بعد اسرائیلی طیاروں نے نیپال کے کٹمنڈو ائیر پورٹ پر لینڈ کرنا تھا۔ بھارت میں اس کا نام "Operation Thunder” رکھا گیا تھا، جبکہ اسرائیل نے اسے "Mini-Osirak” کا نام دیا تھا۔

پاکستانی خفیہ ادارے "ISI” کو اس سازش کی بھنک لگ گئی، جس پر پاکستان نے نہ صرف بھارت اور اسرائیل کو شدید جوابی حملے کی وارننگ دی۔ بلکہ امریکہ کو بھی دھمکی دی کہ پاکستان حملے کی صورت میں سویت یوئین کے خلاف جاری افغان جنگ میں ہر طرح کا تعاون ختم کر دے گا۔ جس پر امریکہ نے بھی بھارت اور اسرائیل کو خبردار کیا کہ ایسی کوئی بھی کارروائی قابل قبول نہیں ہے۔

اس تعاون کے باوجود بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی اُس وقت آئی جب 1991 میں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ واحد سُپر پاور بن گیا۔ 29 جنوری 1992 کو بھارت اور اسرائیل نے مکمل سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔اسی سال نئی دہلی میں اسرائیلی سفارت خانہ اور تل ابیب میں بھارتی سفارت خانہ کھول دیا گیا۔ جس سے بھارت اسرائیل تعلقات نئی بلندیوں سے ہنکناہونا شروع ہوئے۔

1999 کی "کارگل جنگ” دوران اسرائیل نے بھارت کو فوری انٹیلی جنس اور ہتھیار فراہم کیے، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان باہمی اعتماد میں اضافہ ہوا۔ جنگ اختتام پر 2000 کے بعد اسرائیل نے بھارت کو جدید ہتھیار، ڈرونز، ریڈار، میزائل دفاعی نظام اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز فراہم کرنا شروع کیے۔ ان میں 2006 میں "Barak-8 سامی میزائل سسٹم” کا 1.1 بلین ڈالر کا معاہدہ ہوا، 2017 میں "Spike ATGM (Anti-Tank Guided Missiles)” کا 1 بلین ڈالر کا معاہدہ ہوا۔ اسی سال "MR-SAM (Medium Range Surface to Air Missile)” کا 1.6 بلین ڈالر کا بھی معاہدہ ہوا۔ 2019 میں بھارتی دفاعی ادارے DRDO-IAI JV نے 100 ملین ڈالر مالیت کی 1000 میزائل کٹس کی تیاری کے لیے معاہدہ کیا۔

اسرائیل نے بھارت کی "Make in India” پالیسی کے تحت ہتھیاروں کی تیاری کے "آفسٹ معاہدات” میں سب سے بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے تحت متعدد مشترکہ منصوبے (Joint Ventures) شروع کیے گئے ہیں۔ بھارت اسرائیل کے ان مشترکہ منصوبوں میں سے ایک حیدرآباد میں قائم KRAS (Kalyani Rafael Advanced Systems) ہے، جہاں اسرائیل کے MR-SAM، Spike میزائل، اور لیزر گائیڈڈ بموں کی اسمبلنگکی جاتی ہے۔ حیدر آباد میں ہی قائم "Elbit–Adani JV” میں اسرائیل کے Hermes 900 اور 450 ڈرونز کی اسمبلنگ کی جاتی ہے۔ ایک اور اہم منصوبہ IWI (Israel Weapon Industries) + Punj Lloyd” ہے جس میں اسرائیل کی Tavor، Galil، Negev رائفلز اور LMGs تیار کی جاتی ہیں۔ حیدرآباد کے "Bharat Dynamics Ltd (BDL)” میں اسرائیلی مختلف میزائلوں کی انٹیگریشن اور اسمبلنگ کا کام کیا جاتا ہے۔

موجودہ وقت میں اسرائیل کے Heron اور Searcher جیسے ڈرونز بھارتی فوج اور سرحدی ایجنسیوں کے لیے سب سے اہم "انٹیلیجنس ٹولز” ہیں۔ بھارت اسرائیل کے ساتھ مشترکہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرامز کے ذریعے "سائبر سیکیورٹی، AI، اور انسداد دہشت گردی ٹیکنالوجی” حاصل کر رہا ہے۔ اسرائیل بھارت کو سرحدی نگرانی کے لیے ٹیکٹیکل ریڈار، نائٹ وژن، اور سمارٹ بم بھی فراہم کر رہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے فوجی ترجمان نے حالیہ "4 روزہ معرکے” کے دوران اپنی پریس کانفرنس میں”اسرائیلی فوجی ماہرین کی سری نگر آمد” کی بات بھی اشارتاً کی تھی۔

بھارت کا اسرائیل سے اسلحے کی پیداوار میں شامل ہونا اب صرف خریداری کا معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک "اسٹریٹجک عسکری اتحاد” بن چکا ہے۔ پاکستان کو اپنی دفاعی پالیسی میں نہ صرف اسرائیل-بھارت اتحاد پر نظر رکھنی ہوگی، بلکہ اسرائیل کی وجہ سے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی چالوں پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

Read Previous

دیوانوں کی دنیا اور ہوتی ہے

Read Next

پڑوس میں ایک اور "آپریشن سندور”

Leave a Reply