
انقرہ میں تھنک ٹینک ادارہ ‘اے ڈی اے ایم’ (Ankara Center for Thought and Research – ADAM) میں پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی، اور کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کے تناظر میں ایک اہم نشست کا انعقاد کیا گیا۔
اس موقع پر ترک اسکالر، گوخان اُمیت نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ، ہم نے دیکھا کہ، مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری تنازعہ تاریخی تسلسل کا حامل ہے۔ یہ معاملہ بنیادی طور پر کشمیری مسلمانوں کی شناخت کے زاویے سے زیر بحث آتا ہے۔ پہلگام حملے کے بعد بھی بحث کا رخ ایک بار پھر مسلم-ہندو تقسیم کی جانب ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ، بھارت نے حسب روایت پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا، لیکن اس الزام کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیے۔ مزید برآں، بھارت نے پہلگام واقعے کی غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی پاکستان کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔
گوخان امیت کا کہنا تھا کہ، بھارتی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد، جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل ہو گئی۔ اس موقع پر ہم نے مشاہدہ کیا کہ، مودی حکومت کے تحت بھارت نے مذاکرات کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان بامعنی بات چیت کے لیے ضروری ہے کہ، فریقین مثبت اقدامات کریں۔ ترک اسکالر نے برملا کہا کہ، یہ بات اب واضح ہو چکی ہے کہ، خطے کے مسائل کو صرف فوجی طریقے سے حل کرنا نہایت دشوار ہے، خاص طور پر جب پاکستان کی فوج بھارت کے حملوں کا بھرپور اور مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔