turky-urdu-logo

پاکستان-بھارت جنگ کے نتائج

دنیا میں جنگوں کے آغاز کے کئی اسباب ہوتے ہیں – جیسے کہ معاشی مفادات، سیاسی محرکات، فوجی برتری کی خواہش، طاقت کا مظاہرہ، زمین پر قبضہ یا محض جارحیت۔

مگر پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ کی سب سے چشم کشا وجہ (کم از کم ہماری نظر میں) عالمی اسلحہ منڈی کی وہ حد ہے جہاں تک وہ پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں جدید ترین ہتھیاروں اور ایٹمی طاقت سے لیس ہیں۔ اسلحہ فروشوں نے اپنے ہتھیار آزمانے کے لیے ان دونوں ممالک کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔

نتیجہ؟ جو ممالک اور کمپنیاں بھارت کو اسلحہ بیچ رہی تھیں ان کے شیئرز گر گئے، اور جو پاکستان کو اسلحہ فراہم کر رہے تھے وہ نمایاں ہو گئے۔

اور سب سے اہم بات: یہ جنگ پاکستان نے شاندار برتری سے جیتی۔

پاکستان کے ہتھیار ہر لحاظ سے بھارتی اسلحہ پر فوقیت رکھتے تھے – یہ سچ کھل کر دنیا کے سامنے آ گیا۔

یہ تو ہے جنگ کا ظاہری پہلو – اور یہ بالکل درست ہے۔

لیکن ایک اور سچ ہے، جسے نہ ممالک مانتے ہیں نہ اسلحہ فروش تسلیم کرتے ہیں:

دنیا کے سب سے جدید اور مہلک ہتھیار سے بھی زیادہ طاقتور ایک اور قوت ہے — وہ ہے: دوستی، بھائی چارہ، یکجہتی، اتحاد اور اخوت۔

بھارت اور دیگر اقوام نے جس حقیقت کو فراموش کر دیا وہ یہی ہے۔ میری رائے میں، پاکستان کی فیصلہ کن فتح میں کلیدی کردار ترک-پاکستان دوستی اور ناقابلِ تسخیر بھائی چارے کا ہے۔

یہ کہنا میرا مقصد ہرگز نہیں کہ یہ جنگ ترکیہ نے جیتی — ہرگز نہیں!

یہ جنگ پاکستان کی بہادر فوج، اور اس کے جانثار، ناقابلِ تسخیر ایمان سے لبریز سپاہیوں نے جیتی۔

لیکن ترکیہ اور ترک عوام نے ہر میدان میں پاکستان کا ساتھ دے کر، یہ پیغام دیا:

"تم اکیلے نہیں ہو، ہم ہر حال میں تمہارے ساتھ ہیں، جب اور جہاں ضرورت ہو، ہم ہر اقدام کے لیے تیار ہیں۔”

یہی یکجہتی پاکستان کی طاقت کو دوچند کرنے کا باعث بنی۔

یہی بات بھارت نے میدانِ جنگ میں کھل کر دیکھی اور نتیجتاً ترکیہ کے خلاف بائیکاٹ کی کوششوں میں مصروف ہو گیا۔

تجارت اور تعلیم کے معاہدے معطل کیے، ترک کمپنیوں کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اپنایا، اپنے شہریوں کو ترکی جانے سے روکا، اور TRT World پر پابندی عائد کر دی — یہ سب کچھ اسی جھنجھلاہٹ کا نتیجہ تھا۔

لیکن بھارت کو یاد دلانا ضروری ہے:

ترک قوم کو بھولنے کی غلطی نہ کریں!

آپ کے بائیکاٹ ہمیں محض داڑھی تراشنے تک محدود رکھتے ہیں — ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اور ہاں!

کشمیر سے ہاتھ کھینچ لیجیے۔

ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے:

"جس کا رہنما کوا ہو، اس کی ناک سلامت نہیں رہتی!”

اگر آپ کا ارادہ اسرائیل کی طرح کشمیر میں ظلم و ستم برپا کرنا ہے — تو بہتر ہے کہ یہ خیال فوراً ترک کر دیں، ورنہ یہ آپ کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہو گی۔

ایک اور بات —

بھارت کے ایک پادری نما شخص نے مکہ مکرمہ پر حملے اور اس کے انہدام کی بات کی ہے، اور اسلام و پیغمبر اسلام کی توہین کرتے ہوئے اسے ہندوؤں کا خواب قرار دیا ہے۔

ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں —

آپ کے عوام ہمارے خوابوں کے بارے میں جاننا تو درکنار، سننا بھی گوارا نہیں کرے گی!

ہندو عوام کو ایک بات سنجیدگی سے سوچنی چاہیے:

"آخر ہمارے پاس ترکیہ جیسا سچا دوست اور بھائی کیوں نہیں؟”

چاہے دنیا میں جنگی ٹیکنالوجی کسی بھی سطح تک کیوں نہ پہنچ جائے، چاہے آپ کتنے ہی مہلک ہتھیار رکھیں —

اگر آپ کے پاس حقیقی دوست، بے لوث بھائی نہ ہوں تو آپ ہمیشہ شکست خوردہ رہیں گے۔

بھارت ترکیہ پر جو چاہے بائیکاٹ نافذ کرے، جو چاہے معاندانہ رویہ اختیار کرے —

یہ نہ ہماری معیشت کو متاثر کرتا ہے، نہ ہی ترکیہ-پاکستان دوستی میں کوئی دراڑ ڈال سکتا ہے۔

یقیناً پاکستان اور ترکیہ دونوں، باہمی مفادات کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں —

لیکن اگر کوئی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی، تو نتائج اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہوں گے۔

اور یاد رکھیے —

بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں!

ان کی موجودگی کو فراموش نہ کریں۔

اس جنگ نے ایک سچ کو بڑی شدت سے عیاں کیا:

ایسی دوستیاں اور بھائی چارے جو مضبوط بنیادوں پر قائم ہوں، اور جنہیں ناقابلِ شکست ایمان سے تقویت ملے — وہ دنیا کے کسی بھی جدید ہتھیار سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔

ترکیہ اور پاکستان کی دوستی اور بھائی چارہ زندہ باد!

Read Previous

پاکستانی بزنس کمیونٹی کی بائیکاٹ مہم کے خلاف ترکیہ کی حمایت کا اعلان

Read Next

انقرہ تھنک ٹینک: پہلگام واقعے کے بعد بھارت الزامات کے ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا، گوخان اُمیت

Leave a Reply