
ضیاء الحق سرحدی (سینئر نائب صدر پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
پاکستان اور ترکیہ کا رشتہ صدیوں پرانا اورگہرا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف تاریخی تعلقات ہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں بھی ایک مضبوط رشتہ قائم ہے۔ اس رشتے کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ گئی جب ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی باہمی دوستی نے نیا رنگ لیا۔ان دونوں رہنماؤں کی ذاتی دوستی اور ان کے درمیان گہرے تعلقات نے نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبت کو فروغ دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ان دونوں ملکوں کی ایک نئی شناخت بھی قائم کی ہے۔ رجب طیب اردوان کا سیاسی کیریئر ایک متاثر کن داستان ہے، وہ صرف ترکیہ کے صدر نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے رہنما ہیں جو اپنے ملک کو عالمی سطح پر ایک مضبوط مقام دلانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اردوان کی شخصیت کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی جرات مندی اور فیصلے کرنے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے ترکیہ کو ایک طاقتور اقتصادی اور سیاسی ملک بنانے کی بھرپورکوشش کی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔اردوان کی سیاست میں اس بات کی اہمیت ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفادات کے لیے کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ان کا کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرنا اور عالمی فورمز پر پاکستان کی پوزیشن کا دفاع کرنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑے رہنے کے لیے تیار ہیں۔ اردوان کی قائدانہ صلاحیتیں، ان کی سیاست میں صاف گوئی اور واضح موقف اور اپنے عوام کے ساتھ براہ راست تعلق کی کوششیں انھیں ایک منفرد رہنما بناتی ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان کے رہنماؤں کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی خوشگوار رہے ہیں، لیکن اردوان اور شہباز شریف کی
ذاتی دوستی نے اس رشتہ کو ایک نیا معنی دیا ہے۔دونوں رہنما ایک دوسرے کی قیادت کی قدر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ملک کے مفادات کے لئے ایک مضبوط حمایت کا نشان ہیں۔ اردوان اور شہباز شریف کے تعلقات میں جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے تجربات اور کامیابیوں کا احترام کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے کئی بار اردوان کی قیادت اور ترکیہ کی ترقی کی تعریف کی ہے اور ان کے ساتھ تعاون کے امکانات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ دوسری طرف اردوان نے بھی پاکستان کے معاشی چیلنجز میں اس کی مدد کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ دونوںرہنماؤں نے ہمیشہ اپنے ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں ترکیہ کے ساتھ مختلف سطحوں پر بات چیت ہوئی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے موقف کو عالمی سطح پر مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات کو بڑھانے کے لئے کئی مشترکہ منصوبے شروع کیے گئے ہیں، خاص طور پر دفاعی شعبے میں۔ ترک کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دینا اور اقتصادی تعلقات کی مزید مضبوطی دونوں رہنماں کی ایک اہم کوشش ہے۔ترکیہ کے صدر کی پاکستان میں ثقافتی اور تاریخی اہمیت پر بات چیت اور دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تبادلوں نے عوامی سطح پر محبت اور احترام کو مزید بڑھایا ہے۔ پاکستان کو تسلیم کرنے والے ممالک میں ترکی صف اول میں شامل تھا جب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کا قیام عمل میں آیا تو ترک سفیرکی اسناد وصول کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں ممالک کے مابین موجود روحانی، جذباتی اور تہذیبی رشتوں کا بالخصوص ذکرکیا۔ترکی دنیائے اسلام کا واحد ملک ہے جس سے ہمارے انتہائی گہرے مراسم گزشتہ 70 برس سے تسلسل سے قائم ہیں۔ ترکی اور پاکستان میں دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954 میں وجود میں آیا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔گزشتہ دنوں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان 24 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پردستخط ہوگئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مفاہمت کی یادداشتوں اور معاہدوں پر دستخط کئے۔ پاک ترکیہ سٹرٹیجک تعلقات مزید مستحکم کرنے کے اعلامیے پر دستخط کئے گئے۔ سماجی و ثقافتی بنیادوں پر ملٹری، سول پر سنیلز کے تبادلے کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کئے گئے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایئر فورس الیکٹرانک وار فیئر اور انرجی ٹرانزیشن کے شعبے میں تعاون کی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہوئے۔ ہائیڈروکاربنزکے شعبے میں پاک ترک تعاون کے معاہدے میں ترمیم کے پروٹوکول پر بھی دستخط کئے گئے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے پاکستانی اور ترک رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اعلی سطحی سٹرٹیجک کو آپریشن کونسل کے درمیان ہونے والی ملاقات میں شرکت کی۔ وزیر اعظم نے دونوں برادر ممالک کے درمیان نتیجہ خیز اقدامات بہتر کاروباری معاملات اور دوطرفہ سرمایہ کاری کو آسان بنانے کے ذریعے دو طرفہ اقتصادی تعاون کو مزید گہرا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے ترک کمپنیوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان کے معاشی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے منظر نامے کی بے پناہ صلاحیت سے فائدہ اٹھائیں اور زراعت، نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، توانائی اور کان کنی سمیت دیگر شعبوں میں باہمی فائدہ مند تعاون کے لئے کام کریں۔ ترکیہ کے صدر اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان کو ایک کامیاب دورہ کہا جا سکتا ہے، دونوں ممالک کے مابین متعدد یادداشتوں پر دستخط کئے گئے ہیں، ترک صدر نے 2016 ء اور بعد ازاں 2020ء میں بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان زیادہ بات چیت دفاعی تعاون پر ہوئی ہے۔ پاکستان ترکیہ سے جدید ڈرون طیارے حاصل کرے گا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے عرصے میں پاک ترکیہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور پاک ترکیہ تجارت میں وسیع تر اضافہ ہوگا۔ ماضی کی طرح دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا جبکہ تذویراتی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پاکستان اور ترکیہ کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے، دونوں ممالک کے تعلقات مضبوط تاریخی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر استوار ہیں، صدیوں سے دونوں ممالک کے عوام کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ دونوں کے درمیان مذہب اور ثقافت کی ایک سنہری تشکیل موجود ہے جو وقت کے ساتھ مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ تعلقات صرف حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام محبت اور اخوت کے لازوال رشتوں میں جڑے ہیں۔ پاکستان اور ترکیہ کے تذویراتی تعلقات ہمیشہ سے مستحکم رہے ہیں۔ ان تعلقات کو مزیدمستحکم کرنے کے لیے پاکستان ترکی اعلیٰ سطح تزویراتی تعاون کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جو دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا اہم پلیٹ فارم ہے۔ پاکستان نے 2018 میں ترک دفاعی کمپنی کے ہمراہ کراچی شپ یارڈ کی تاریخ کے سب سے بڑے جنگی جہاز کی تیاری کے لیے بھی معاونت کی تھی یہ اسلحے کی تیاری کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنا لوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔ پاکستان اور ترکی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کی جنگ لڑنے اور اسی دیگر علاقائی تنازعوں میں بھی حمایت کی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو آرمینیا کو آزادریاست کے طور پر تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان، ترک اتحادی آذر بائیجان کی جانب سے ناگورنو کا را باغ کے متنازع علاقے پر دعوے کی بھی حمایت کرتا ہے جبکہ مسئلہ کشمیر پر ترکی ببانگ دہل پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ستمبر 2020 ء میں صدر اردوان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیر کو ایک سلگتا ہوا تنازع قرارد یا تھا۔ اسی طرح دونوں ممالک فلسطین کے تنازعے پر بھی یکساں موقف رکھتے ہیں اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اس امر کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ کسی ایسے سیاسی تصفیے کی حمایت نہیں کی جائے گی جو فلسطینی عوام کی حمایت نہ کرتا ہو۔ ترکیہ میں جمہوریت اور عوامی حکمرانی کے تصور کو بہت ساری مشکلات کا سامنا رہا ہے لیکن صدر طیب اردوان کے ساتھ عوام کی محبت اور بے مثال حمایت نے ہر بغاوت کو کچل کر رکھ دیا۔ ترکیہ کی عوام نے اپنے راہبر رجب طیب اردوان کی معیت میںہر قسم کے مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف کو اپنے دور حکومت میں مختلف تاہم دیگر مسائل اور چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج معاشی عدم استحکام ہے، جس سے نمٹنے کے لئے حکومت کوشاں ہے۔ تاہم وزیر اعظم پاکستان نے ہمت اور تدبر کے ساتھ اپنی معاشی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس چیلنج کو قبول کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کے لئے اس وقت دوسرا بڑا چیلنج مہنگائی ہے جس پر قابو پانے اور عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کے تمام تر دعوؤں کے باوجود زمینی حقائق نہایت تلخ ہیں جن کی جانب توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ اگر حکومت کے دعوے کے مطابق ملک ترقی کر رہا ہے تو اس ملک میں رہنے والی عوام تو آٹے دال کے بھاؤ سے ہی نبرد آزما ہے۔ جب تک ملک و قوم یکساں طور پر خوشحال نہیں ہوں گے ۔ترقی کے دعوے بے معنی ہیں۔