turky-urdu-logo

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مصنوعی ذہانت  کے شعبے میں 500 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان

سابق مریکی  صدر، جو بائیڈن کے AI سے متعلق احکامات کی منسوخی کے بعد امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ،نجی شعبے کے تعاون سے مصنوعی ذہانت (AI) کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ یہ منصوبہ اوریکل، اوپن اے آئی، اور سافٹ بینک کی قیادت میں شروع کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ٹیکنالوجی کے میدان میں حریف ممالک کو پیچھے چھوڑنا ہے۔

ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ ،اوپن اے آئی، سافٹ بینک اور اوریکل ایک مشترکہ منصوبہ ‘سٹارگیٹ’ کے تحت ڈیٹا سینٹرز تعمیر کریں گے، جس سے امریکہ میں 1 لاکھ سے زیادہ نوکریاں پیدا ہوں گی۔

اس منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر 100 ارب ڈالر فراہم کیے گئے ہیں، جبکہ باقی سرمایہ آئندہ چار سالوں میں فراہم کیا جائے گا۔

ا س موقع پر اوریکل کے چیئرپرسن، لیری اللیسن نے بتایا کہ، ٹیکساس میں پہلے ڈیٹا سینٹر کی تعمیر جاری ہے، اور مزید 20 سینٹرز بنائے جائیں گے، ہر سینٹر آدھے ملین اسکوائر فٹ پر محیط ہوگا   ۔

یہ ڈیٹا سینٹرز ایسی مصنوعی ذہانت کو طاقت فراہم کریں گے جو الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈز کا تجزیہ کرے گی اور ڈاکٹروں کو مریضوں کی دیکھ بھال میں مدد فراہم کرے گی۔

تقریب میں سافٹ بینک کے سی ای او، ماسایوشی سن، اوپن اے آئی کے سی ای او، سیم آلٹمین، اور لیری اللیسن نے صدر ٹرمپ کے کردار کو سراہا۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ، ڈیٹا سینٹرز کے لیے وسیع مقدار میں بجلی کی ضرورت ہوگی، اور ان کے لیے توانائی کی پیداوار کو آسان بنایا جائے گا۔ تاہم، امریکی توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ، AI ڈیٹا سینٹرز اور دیگر شعبوں میں بجلی کے بڑھتے ہوئے استعمال سے آئندہ دہائی میں بجلی کی قلت کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

اس اعلان کے بعد اوریکل کے حصص میں 7 فیصد اضافہ ہوا،جبکہ دیگر ٹیک کمپنیوں جیسے Nvidia اور Dell کے حصص بھی بڑھے۔

یہ منصوبہ ٹرمپ کے سابقہ ​​دور حکومت میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے وعدوں کی تکمیل  کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ،  یہ اقدام امریکہ کو AI ٹیکنالوجی میں عالمی قیادت دلانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔

Read Previous

صدر ایردوان کی مسلم دنیا سے جنگ بندی کے بعد فلسطینیوں کی مدد کی اپیل

Read Next

صدر ایردوان کی علوی رہنما احمد اوغورلو سے ملاقات، مسائل اور مطالبات پر گفتگو

Leave a Reply