turky-urdu-logo

کیا تمام سویلینز کے ساتھ اے پی ایس کے مجرمان جیسا برتاؤ ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ آف پاکستان


سپریم کورٹ آف پاکستان  میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے  اہم سوالات اٹھائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ، سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل صرف اے پی ایس جیسے دہشت گردوں کے لیے تھا، کیا ہر عام شہری کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جا سکتا ہے؟

یہ کیس آئینی بینچ کے سامنے پیش ہوا، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین کر رہے تھے۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ، ماضی میں عدالت یہ طے کر چکی ہے کہ مخصوص حالات میں سویلینز کا ملٹری عدالتوں میں ٹرائل ممکن ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ، آئین کا آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور رولز معطل ہو سکتے ہیں لیکن مکمل ختم نہیں ہو سکتے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ، اگر آئین کے تحت بھی رولز معطل ہوں تو کیا شہریوں کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں؟

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ، عدالت کے ماضی کے فیصلے میں آرٹیکل 8 کی غلط تشریح کی گئی تھی اور ایف بی علی کیس کو غلط مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ، ایف بی علی کے کیس میں صورتحال مختلف تھی کیونکہ جرم کے وقت وہ ریٹائرڈ نہیں تھے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ، موجودہ کیس میں 9 مئی کے ملزمان آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے اور وہ نہ ہی ‘ایکس سروس مین’ ہیں، بلکہ وہ صرف عام شہری ہیں، اس لیے سوال یہ ہے کہ، کیا عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی طور پر درست ہے؟

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ، سویلینز کا ملٹری عدالتوں میں ٹرائل اے پی ایس جیسے دہشت گردوں کے لیے مخصوص تھا، لیکن کیا ہر سویلین کو اسی طریقے سے ٹرائل کا سامنا کرنا چاہیے؟ جسٹس علی مظہر نے پوچھا کہ، اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین اور مثالیں کیا ہیں؟ جس پر وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ، ان کے پاس ایسی مثالیں موجود ہیں جن پر آئندہ دلائل دیے جائیں گے۔

جسٹس جمال نے کہا کہ، ہمارے بہت سے فوجی جوان شہید ہوتے ہیں، تو کیا ان کے قاتلوں کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ، سوال یہ ہے کہ کن مخصوص جرائم میں سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔،

خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ، اس کیس میں ہم مستقبل کے کیسز نہیں بلکہ موجودہ کیس کے حقائق پر بات کر رہے ہیں۔ جسٹس مندوخیل نے وضاحت کی کہ ،عدالت کا بنیادی سوال یہ ہے کہ سویلینز کا ملٹری عدالتوں میں ٹرائل کہاں تک آئینی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے اختتام پر کہا کہ، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے اور بنیادی حقوق برقرار ہیں، اس لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ ملٹری عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے لیے کس حد تک گنجائش موجود ہے۔

Read Previous

TRT اور اناطولیہ ایجنسی نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف کامیاب رپورٹنگ کی: فخر الدین آلتن

Read Next

شمالی قبرصی ترک جمہوریہ کو ترکیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے: صدر ارسین تاتار

Leave a Reply