turky-urdu-logo

شام کی صورتحال: امریکی پراکسیز کی شکست!

تحریر: کامران رفیع

ترکیہ نے شام میں اپنی حکمت عملی سے جو کامیابیاں حاصل کیں، وہ عالمی طاقتوں کے لیے حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہیں۔ امریکی کانگریس کے رکن جان کینیڈی نے کھل کر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو دھمکی دی کہ اگر کردوں کو نقصان پہنچایا گیا تو امریکہ سخت اقدامات کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے شام میں اسرائیل کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔


دوسری طرف، نومنتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:
"ہمیں نہیں معلوم کہ شام میں کیا ہوا اور آگے کیا ہوگا کسی کو نہٰیں معلوم، لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ اس کے پیچھے ترکی ہے۔ یہ ترکی کا ہزار سالہ خواب تھا، اور اردوان ایک نہایت ذہین اور سخت رہنما ہیں جنہوں نے ایک جدید اور طاقتور فوج تیار کی ہے۔”
ان کے مطابق، ترکی نے شام پر "غیر دوستانہ قبضہ” کر لیا ہے، لیکن یہ سب کچھ اتنی مہارت سے کیا کہ زیادہ خونریزی بھی نہ ہوئی۔


حقیقت یہ ہے کہ ترکی نے شام میں جس مہارت سے اپنی پوزیشن مضبوط کی، وہ ایک شطرنج کے بہترین کھلاڑی کی چال کے مترادف ہے۔ ترکی نے روس کے ساتھ مل کر خطے میں اپنی طاقت کو بڑھایا اور اپنے دفاعی اور عسکری نظام کو اس قدر مضبوط کیا کہ امریکی اور اسرائیلی پالیسی ساز بھی اس کے اثرات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔


اس نئ صورتحال میں امریکی پراکسی اور حلیف کمزور پوزیشن پر آچکے ہیں ۔ شام میں امریکہ اور اسرائیل کی دو اہم حلیف تھے: ایک تو سیرین ڈیموکریٹک فورسز (SDF): یہ دہشت گرد تنظیم PKK کی شاخ ہے، جو کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ اوردوسرا بشار الاسد کی حکومت: جو بظاہر روس کی حلیف تھی، لیکن پس پردہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مفادات کا تبادلہ کرتی رہتی تھی ہے۔اور جب تک بشارحکمران تھا اسرائیل کو شام کے فوجی اثاثوں سے کوئ خطرہ نہیں تھا اور اس کے جاتے ہی اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ اپوزیشن کے ہاتھ لگیں لہذا اس نے دو ہفتوں میں پانچ سو سے زائد حملے شام کے فوجی اثاثوں پر کیے ہیں


جب ترکیہ نے روس کے ساتھ مل کر ادلب کو سیف زون بنایا اور خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کی، تو امریکی ایما پر بشار الاسد اور کردوں کی سیرین ڈیموکریٹک فورسز فوراً ایک دوسرے کے اتحادی بن گئے۔ یہ امریکہ کے لیے شام میں ایک دوہری شکست تھی۔ اسی لیے اس وقت بھی امریکہ اور اس کے اتحادی رجیم چینج کے منصوبے کی بجائے کردستان کے منصوبے پر زیادہ تیزی سے عمل کرنے لگے اور ترکیہ کو پیچھے دھکیلنے کے لیے اس نے SDF کے ذریعے بشار کی مکمل سپورٹ کی۔


ٹرمپ کے الفاظ، "ترکیہ نے بغیر خونریزی کے شام پر "غیر دوستانہ قبضہ جمالیا”، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ شام میں ترکی کی حکمت عملی نہ صرف موثر رہی بلکہ عالمی طاقتوں کو حیرت میں ڈالنے والی بھی تھی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی شام پالیسی بری طرح ناکام ہوئ ہے۔ ٹرمپ اور امریکی سینٹر نے اسی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔ اب انکی پوری کوشش یہ ہے کہ وہ کسی طرح SDF کو نئے شامی اقتدار میں شریک کروا سکیں اور وہ اسی کے لیے ترکیہ سے رابطے کررہے ہیں
مگر ہمارے کچھ دانشور اور نظریاتی گروہ اب بھی شام میں ترکیہ اور شامی عوام کی کامیابیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے، سازشی نظریات کے سائے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ شام میں ایک نیا اور مثبت باب کھل رہا ہے


وہ یہ یقین رکھتے ہیں اور باور کرواتے رہتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل "ناقابل شکست طاقت” ہیں اور "جو ہوتا ہے امریکہ کی مرضی سے ہوتا ہے” ۔ درحقیقت یہ بیانیے ایسے ہیں کہ جو ہمارے رائٹ اور لیفٹ سب کے اذہان پر چھائے ہوئے ہیں ۔ بدقسمتی سے، ہمارے ذہن سازشی نظریات اور شکست خوردہ سوچ کے زیرِ اثر، ان بیانیوں کو حقیقت کے طور پر قبول کر لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ہم لاشعوری طور پر امریکہ اور اسرائیل کو ناقابل شکست قوت سمجھ کر انہٰں غیر مرئ اختیار کا حامل سمجھ لیتے ہیں ۔ یہ ایمانی لحاظ سے تو خطرناک ہے ہی دنیاوی لحاظ سے بھی یہ خسارے کا سودا ہے


دراصل یہ ایک چالاک اور پراپیگنڈہ میں ماہر دشمن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس بیانیہ کو قبول کرکے ہم خود کو کمزور اور دشمن کو ناقابل شکست ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنی کامیابیوں کو بھی ان ہی کے کھاتے ڈال دیتے ہیں اور اپنی ذہنی شکست پختہ تر ہوجاتے ہیں۔
۔ لیکن یہ وقت ہے کہ ہم اپنی اصل طاقت کو پہچانیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوٰ نہیں کہ جس کی مرضی ہر چیز پر حاوی ہے

Read Previous

اللہ کے بعد ہمیں ترکیہ پر اعتماد ہے: وزیرِ اعظم لبنان

Read Next

ترک ادارے ٹکا کی جانب سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے ہال کی تزئین و آرائش کا کام مکمل، ترک سفیر عرفان نذیر اوغلو نے افتتاح کر دیا

Leave a Reply