turky-urdu-logo

یکم نومبر، خلافتِ عثمانیہ کا آخری دِن

تحریر: ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

ہر کمالے را زوالے

یکم نومبر 1922 ء کو سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا

کہتے ہیں ہر کمال کو زوال ہے

اور یہی سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ہوا وہ عظیم الشان سلطنت جسے تیمور لنگ کی مہم جوئی اہل یورپ کی یلغار نہ ختم کر سکی بالآخر اپنوں کے ہاتھوں آج کے دن تاریخ کے صفحات کا حصہ بن گئی

یکم نومبر 1922 ء کو خلافتِ عثمانیہ کے آخری سلطان محمد وحید الدین (محمد ششم) کو ترکی کی نیشنل اسمبلی نے اُن کے عہدے سے برخاست کر دیا اور یوں 623 سال تک قائم رہنے کے بعد

سلطنت عثمانیہ کا باقاعدہ خاتمہ ہو گیا۔

ارطغرل اور اس کے بیٹے عثمان غازی کی قائم کردہ وہ معمولی سی ریاست جس نے1299ء کو ترکی کے ایک چھوٹے سے شہر Söğüt سوت میں جنم لیا

دنیا کے تین براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لیا اور پھر تین سو سال تک دنیا کی سب سے بڑی سلطنت رہنے کا اعزاز حاصل کیا آخرکار قسطنطنیہ جیسےعظیم الشان شہر میں اپنے انجام کو پہنچی

ارطغرل غازی 1282ء میں فوت ہوا تو اس نے اپنے بیٹے عثمان غازی کے لئے چالیس مربع میل پر مشتمل چھوٹی سی جاگیر چھوڑی جس کا دارالسطنت سوت Söğüt تھا اس وقت یہ ریاست

سلجوق سلطنت کا ایک حصہ تھی 1298ء میں منگولوں کے ہاتھوں سلجوق سلطنت کا خاتمہ ہوا تو 1299ء میں عثمان غازی نے اپنی آزاد ریاست کا اعلان کیا اس وقت اس سلطنت کا رقبہ دو سو مربع میل تھا یہ سلطنت عثمانیہ کا آغاز تھا

1324 ء میں جس روز عثمان غازی کے بیٹے اور خان نے برصہ (بروصہ)

فتح کیا اسی روز عثمان غازی کا انتقال ہوگیا

عثمان غازی نے پانچ سو مربع میل کی ریاست اپنےبیٹے اورخان کے لئے چھوڑی

اپنے دادا ارطغرل غازی کی وصیت کے مطابق اور خان غازی نے اپنا دارلحکومت برصہ کو بنایا

جلد ہی اس نے آبنائے باسفورس کے مشرقی علاقے پر واقع ترکی کا سارا علاقہ فتح کر لیا جسے اناطولیہ کہتے ہیں

اور خان کے دور میں اس کے بیٹے سیلمان پاشا نے 1354 ء میں گیلی پولی کو فتح کیا اور پہلی بار درہ دانیال کو عبور کر کے بلقان میں قدم رکھا

اپنے بھائی سیلمان کی موت کے بعد تیسرے عثمانی حکمران مراد اوّل نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور جلد ہی سارا تھریس Thrace فتح کر لیا تھریس بزنطینی سلطنت کے اس حصے کو کہتے ہیں جو آبنائے باسفورس کے مغربی کنارے پر یورپ یا بلقان میں واقع تھا

آبنائے باسفورس کے مشرقی کنارے پر آباد ترکی کو انطاکیہ کہتے ہیں

جس کی حدیں شام اور ایران سے جا ملتی ہیں

1362 ء میں مراد خان نے تھریس کے صدر مقام ایڈرین پول کو فتح کیا

سلطان مراد نے ایڈرین پول کا نام تبدیل کر کے ایڈرنہ رکھ دیا اور تھریس کو رومیلیہ Rumalia کا نام دیا

اپنے باپ اور خان کی وصیت کے مطابق اس نے 1363 ء میں اپنا دارلسلطنت برصہ سے ایڈرنہ منتقل کر دیا اب عثمانی سلطنت کی سرحدیں سنڑل یورپ تک پھیل چکی تھیں

سلطان مراد اوّل 1389 ء میں کسوو Kosovo کی جنگ میں شہید ہوا وہ پہلا اور آخری عثمانی سلطان ہے جو میدان جنگ میں شہید ہوا اس کی شہادت کے بعد اس کا بیٹا بایزید یلدرم چو تھا عثمانی حکمران بنا

بایزید یلدرم نے تیرہ سال حکومت کی اور اس مختصر عرصے میں یلدرم نے آٹھ ملک اور دو سو سے زائد شہر فتح کئے 1396ء میں نکو پولس کی جنگ میں پورے یورپ کی متحدہ فوج کو شکست دی جو آٹھویں اور آخری صلیبی جنگ تصور ہوتی ہے

اس جنگ میں شکست کے بعد تقریباً پورا یورپ ترکوں کا مطیع ہو چکا تھا

تیمور لنگ نے 1402 ء میں سلطنت عثمانیہ پر حملہ کیا سلطان انگورہ (انقرہ) کی جنگ ہار گیا وہ اپنے بیٹے مصطفی اور بیوی سمیت قیدی بن گیا

اور یوں وہ بہادر اور عظیم جرنیل جو زندگی میں ہمیشہ جیتا تھا ہر جنگ میں فاتح رہا تھا

پہلی مرتبہ ہار گیااور وہی ایک ہار اس کی تباہی کا سبب بن گئی تیمور اپنے قیدی کے ساتھ سمرقند واپس لوٹ گیا

سطان اپنی اس ذلت آ میز شکست اور گرفتاری کو برداشت نہ کرسکا اور چند مہینوں کے بعد ہی مارچ 1403ء میں اسیری کی حالت میں انچاس سال کی عمر میں اپنے خدا سے جا ملا اسے برصہ لا کر دفنایا گیا

سلطان یلدرم کی شکست اور موت کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ انتشار، خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار ہوگئی سلطان کے چار بیٹوں کے درمیان اقتدار کی ایسی جنگ چھڑی جو گیارہ سال تک جاری رہی اور آخر کار سلطان کے تیسرے بیٹے محمد اوّل کی فتح پر ختم ہوئی

سلطان محمد اوّل نے عثمانی سلطنت کو نئے سرے سے استوار کیا اور ایک بار پھر اسے مضبوط سلطنت بنا دیا

اس کے پوتے اور ساتویں سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں قسطنطنیہ کو فتح کیا اور اس کے ساتھ ہی ڈیڑھ ہزار سالہ بزنطینی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور یوں حضور اکرم کی وہ بشارت مکمل ہوئی جس میں انہوں نے رومی (بزنطینی ) سلطنت کے خاتمے کی پشین گوئی کی تھی

1512 ء میں سلطان سلیم اوّل نواں عثمانی حکمران بنا۔

جنوری 1517ء کو سلطان نے آخری مملوک سلطان ترمان بے دوئم کو جنگ الرادنییہ میں شکست دے کر قاہرہ پر بھی قبضہ کرلیا اور یوں تین سو سالہ مملوک سلطنت کا خاتمہ ہوگیا

اس کے ساٹھ ہی سارا عرب اور مشرق وسطیٰ بھی ترکوں کے زیر اثر آگیا ۔

جب سلطان سلیم نے قاہرہ فتح کیا تو وہ وہاں موجود عباسی خلیفہ المتوکل سوئم کو اپنے ہمراہ قسطنطنیہ لے گیا

جہاں المتوکل سوئم نے سلطان سلیم کے حق میں دستبردار ہو کر اس کو نیا خلیفہ نامزد کر دیا اور اپنے پاس موجود وہ تمام تبرکات جو خلافت کی نشانی سمجھی جاتی تھیں اس کے حوالے کر دیں یہ تبرکات آج بھی ٹوپکی محل کے میوزئیم میں موجود ہیں

اب خلافت کا سہرا بھی ترکوں کے سر بند چکا تھا ۔ اور یوں صدیوں کے بعد سلطنت عثمانیہ نے خلافت کو وہ عزت دی جس کی وہ مستحق تھی

وہ پہلا خلیفہ تھا جس نے “ الحاکمین حرمین شریف “

کی بجائے “ خادمین حرمین شریف “ کا لقب اختیار کیا

اور وہ پہلا حکمران بھی ہے جسے خلیفتہ المسلمین اور خادم حرمین شریفین ہونے کا شرف حاصل ہے

وہ سلطان فاتح کا پوتا اور سلطان سلیمان عالی شان کا باپ تھا

اسے سب سے زیادہ فتوحات حاصل کرنے والا عثمانی سلطان بھی کہا جاتا ہے

وہ 1512 ء سے 1520 ء تک حکمران رہا اور اپنے اس آٹھ سالہ دور اقتدار میں جب وہ1520 ء میں فوت ہوا تو سلطنت عثمانیہ کا علاقہ تقربیاً دُگنا ہو چکا تھا

اس کا رقبہ 576,900 مربع میل سے بڑھ کر 1,494,000 مربع میل ہوگیا تھا

1520 ء میں سیلیمان عالیشان کے دور میں یہ سلطنت اپنے عروج کو پہنچی اور دنیا کی واحد سپر پاور بن گئی

دنیا کی تقدیر کے فیصلے قسطنطنیہ میں ہو نے لگے

1683 ء میں سلطان محمد چہارم کے دور میں سلطنت عثمانیہ چھ ملین مربع کلو میٹر تک پہنچ چکی تھی

اگلی دو صدیاں سلطنت عثمانیہ کے زوال کی صدیاں تھیں

ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ عظیم الشان سلطنت کمزور اور کھوکھلی ہوتی چلی گئی

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست اور عراق، شام اور دیگر عرب علاقوں کے ساتھ فلسطین سے محروم ہو جانے کے بعد اک معاہدے پر دستخط نے ترک قوم پرستوں کو برانگیختہ کر دیا اور انہوں نے زمام کار ہاتھوں میں لیتے ہوئے سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس معاہدے، جو تاریخ میں معاہدۂ سیورز(Treaty of Sèvres 1920 کہلاتا ہے، کے مطابق سلطنت نے شام پر فرانس، فلسطین اور عراق پر برطانیہ کے قبضے کو تسلیم کیا اور ساتھ ساتھ حجاز کو بھی ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے قبول کیا تھا۔ اس پر احتجاجاً قوم پرستوں نے مجلس کبیر ملی کے نام سے انقرہ میں مصطفیٰ کمال کی زیر صدارت الگ اسمبلی قائم کر ڈالی اور محمد ششم کو عہدے سے ہٹا کر انہیں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر جلاوطن کر دیا۔

ابتداء میں نئی حکومت نے خلافت کا عہدہ ختم نہ کیا اور عبد المجید آفندی کو خلافت کے عہدے پر فائز کیا لیکن تین مارچ 1924ء میں سلسلہ خلافت کو بھی موقوف کر دیا گیا اور یوں ساڑھے چھ سو سالہ سلطنت اور تیرہ سو سال سے قائم خلافت اسلامیہ دونوں کا سورج غروب ہوگیا

یہ وہ تاریخی تصویر ہے، جس میں سلطان محمد وحید الدین عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد Dolmabahçe

ڈولمہ باشی محل کے پچھلے دروازے سے ہمیشہ کے لئے نکل رہے ہیں۔ وہ اسی مہینے چند دن بعد مالٹا روانہ ہوگئےتھے اور بعد ازاں 1926ء میں اٹلی میں انتقال فرمایا۔

اگر آپ کو کبھی برصہ جانے کا اتفاق ہو تو برصہ کے اولا پہاڑ کے دامن میں موجود چنار کے اس صدیوں پرانے درخت کو ضرور دیکھنے جائیے گا

جس کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے نیچے بیٹھ کر اور خان نے اپنے باپ عثمان خان کا ہاتھ چوم کر سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی تھی

یہ بوڑھا درخت پچھلے چھ سو سال سے عثمانیوں اور ترکوں کے

عروج وزوال کا گواہ ہے

حوادث زمانہ کی زد میں آکر خلافت عثمانیہ کو ختم ہوئے سو سال ہونے کو ہیں لیکن چنار کا وہ ہرا بھرا سر سبز توانا درخت آج بھی پوری شان سے کھڑا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب ارطغرل غازی کی اولاد ایک بار پھر اس کی گھنی چھاؤں تلے بیٹھ کر اپنی خلافت کی نشاۂ ثانیہ کرے گی اور شائد یہی یقین یہی انتظار اسے زندہ رکھے ہوئے ہے

ترکوں کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں ہے

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے

وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا!

Read Previous

وزیرِ اعظم پاکستان کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات

Read Next

وزیرِ اعظم پاکستان کا دورہ قطر، امیرِ قطر اور وزیرِ اعظم قطر سے ملاقات

Leave a Reply