turky-urdu-logo

ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس، عالمی اجتماع کا اصل چیلنج کیا؟

لاہور; شبیر احمد یوسفزئی

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس 2024 (کوپ 29) آذربائیجان کے دار الحکومت باکو میں

11 سے 22 نومبر تک منعقد ہونے جا رہی ہے۔ ماحولیاتی سربراہی اجلاس میں دنیا بھر کے ممالک کے نمائندہ وفود شرکت کریں گے۔ یہ سربراہی اجلاس یا کانفرنس بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے اور ممکنہ اقدامات کا احاطہ کرتی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اس کانفرنس کا سلسلہ سن 1992 میں اس وقت شروع ہوا جب اقوام متحدہ کے 197 رکن ممالک نے اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلی (UNFCCC) پر دستخط کیے۔اس کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے رکن ممالک کے سامنے سالانہ اہداف رکھے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق کانفرنس آف پارٹیز (COP) کا پہلا اجلاس جرمنی کے شہر برلن میں سن 1995 میں ہوا جبکہ اس کے 29 ویں اجلاس کی میزبانی آذربائیجان کرے گا۔گزشتہ سال یہ کانفرنس سعودی عرب کی میزبانی میں کوپ 28کے نام سے ہوئی جبکہ کوپ 30 یعنی تیسواں اجلاس براذیل میں منعقد ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق رواں سال اس اجلاس میں 4 ہزار بین الاقوامی تنظیمیں شرکت کریں گی۔

ماحولیاتی تبدیلی اس وقت عالمی دنیا کے سامنے ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنے اور نبرد آزما ہونے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ایک ناگزیر عمل بن چکا ہے۔ اس کی لپیٹ میں وہ ممالک بھی آرہے ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی میں بہت

کم یا نہ ہونے کے حصہ دار ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی کتنا سنگین مسئلہ ہے؟

ترکیہ اردو سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ ماحولیات نسیم الرحمان نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے ممکنہ حل پر تمام ممالک متفق ہے ، تاہم ترقی یافتہ ممالک میں بڑھتی صنعت کاری نے دیگر ممالک کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ماحولیات کی تبدیلی میں ایک فیصد سے بھی کم شراکت دار ہے لیکن اس کا شمار متاثرہ دس ممالک میں ہوتا ہے۔ حالیہ سیلاب اور گرمی میں شدت اس بات کی عکاس ہے کہ مناسب اور متفقہ حکمت عملی کے ساتھ اس مسئلے سے نپٹا جائے۔

ماہر ماحولیات ڈاکٹر شفیق کمبوہ نے بھی ترکیہ اردو سے بات کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلی کو اکیسیوں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا اس کی وجہ سےاب سنگین نتائج کا سامنا کر رہی ہے ۔گرمی کی شدت میں اضافہ، جنگلات میں لگنے والے بے قابو آگ اور سب سے اہم خوراک کی کمی اسی کی مرہون منت ہے۔ انہوں مثال دیتے ہوئے کہا کہ زمبابوے نے فیصلہ کیا ہے کہ 200 جنگلی جانوروں کو ذبح کیا جائے گا جبکہ نیمیبیا میں 83 ہاتھیوں کو ذبح کیا گیا تاکہ لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔

وہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک جانوروں کے حقوق کی تحفظ کے تحت اس پر اعتراض عائد کرتے ہیں مگر قحط اور خشک سالی سے مجبور یہ ممالک اور کیا کریں ؟ سالوں سے لوگ خوراک کے حصول کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا بڑے پیمانے پر یورپی ممالک ہجرت کرنے والوں لوگوں کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ غربت، بھوک و افلاس نے انہیں مجبور کردیا ہے۔ لوگوں کے روایتی ذرائع جیسا کہ ذراعت، مویشیوں کی دیکھ بال سارے ختم ہوگئے ہیں۔ اس لیے وہ سرحد پار کرنے کے لیے ہر ممکنہ قانونی و غیرقانونی کوشش کرتے ہیں ۔

لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی شعبہ ماحولیات کی سربراہ ڈاکٹر عارفہ طاہر نے کہا کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی پوری دنیا کے لیے اس وقت ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس کے اثرات بھی واضح ہے۔

سال 2023 اور 2024 کو گرم ترین قرار دیا جا رہا ہے۔ آفات کی تعداد اور کثرت میں اضافہ اس کی سب سے بڑی نشانی ہے۔

پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے کتنا متاثر ہورہا ہے؟

ماہر ماحولیات پروفیسر ڈاکٹر جمیل انور نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، دیگر ممالک کی پھیلائی گئی صنعتی فضلانے اس ملک کو خاطر خواہ نقصان پہنچا یا ہے۔

ڈاکٹر شفیق کمبوہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلے سے ہی محدود جنگلات ہیں، اب وہ بھی ہیٹ ویو کے نتیجے میں آگ کی لپیٹ میں ہے۔ پہلے ہم سنا کرتے تھے کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی مگر رواں سال ہم نے مری کی پہاڑیوں میں کھجور تک کے درخت جھلستے دیکھیں۔ انہوں نے کہا اس کے علاوہ اس سال کے آغاز میں وادی سون کی جنگلات میں لگی آگ اور چلغوزے کی درختوں کا جلنا ہمارے لیے باالکل انھوکی بات تھی۔

ڈاکٹر عارفہ طاہر کہتی ہیں کہ ان مسائل کی وجہ سے ہماری کمیونٹی بہت متاثر ہو رہی ہے۔ اس کی واضح مثال شہری سیلاب کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ پاکستان اس حوالے سے کافی کمزور واقع ہوا ہے۔

کوپ 29 ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کتنی اہم ہے؟

نسیم الرحمان نے کہا کہ کوپ 29 جیسی کانفرنس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تمام ممالک یکجا ہوکر اس مسئلے سے متعلق حکمت عملی پر غور کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک وسائل کی کمی کی وجہ سے اس مسئلے میں بھی ان ممالک کی طرف دیکھتے ہیں ، جو اس کے ذمہ دارہے ۔

شفیق کمبوہ سمجھتے ہیں کہ کوپ 29 جیسی عالمی کانفرنسز دنیا بھر کے ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق واحد ایجنڈے کے تحت جمع کرنے میں کامیاب ہوئیں ہیں مگر 2015 کے بعدیہ وہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی جس کی توقع کی جا ررہی تھی۔ کوپ 29 ایشیاء میں کام کرتی محسوس تو ہوتی ہے مگر سب سے زیادہ کاربن گیس کا اخراج کرنےوالا عالمی جنوبی دنیا اس سے مستثنی نظر آرہی ہے۔

” امریکہ، کینیڈا، اور روس جیسے ممالک نے کوپ کے ایجنڈے پر کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں دیا، تاہم کوپ پورپی یونین ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کام کرنے کے لیے رضامند کرچکی ہے اور کئی حد تک پالیسیوں پر عمل در آمد کا سلسلہ جاری ہے”۔

ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کا شمار کم اخراج کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔تین دہائیوں سے ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایک فنڈ (Loss and Damage Fund)کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ متاثرہ ممالک کے نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔ مگر اس کے لیے تاحال کوئی تیار نہیں، فلپائن نے 2014 جبکہ پاکستان نے 2022 میں اس کا اعلان کیا جب سیلاب کی وجہ سے 20 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ تاہم، کوئی بڑا ملک اس میں پیسے جمع کروانے کے لیے تیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مضبوط سفارتکاری کے ذریعے کوپ 29 فورم کو استعمال کرتے ہوئے عالمی برادری پر پریشر ڈالنا چاہیے کہ وہ اس فنڈ کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

جبکہ جمیل انور کا بھی یہی خیال ہے کہ پاکستان کو اس صورتحال میں تمام بین الاقوامی فورمز پر اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے متاثرہ ممالک کی ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہوجائیں۔

Read Previous

وزیراعظم پاکستان اور ترک صدر کی ملاقات: غزہ میں جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیال

Read Next

برج غلاطہ-Gelata Tower

Leave a Reply