
تحریر : اسلم بھٹی
19 مئی ترکیہ میں ہر سال بطور ” یوم نوجوانان و کھیلوں کا قومی تہوار ” کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اس روز ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے اور نوجوانوں کے لیے مختلف پروگرامز اور سرگرمیوں سمیت بہت سے کھیلوں کے مقابلہ جات منعقد کیے جاتے ہیں۔
دراصل 19 مئی اس تاریخی اور یادگار دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جب 19 مئی 1919ء کو مصطفٰی کمال اتا ترک نے ترکیہ کی جدوجہد آزادی کا سامسون شہر سے آغاز کیا تھا۔ یعنی ترکیہ کی جدوجہد آزادی کا آغاز 19 مئی کو ہوا ۔ لہٰذا اس دن کو یادگار دن کے طور پر ” قومی تہوار ” کا درجہ دیا گیا۔
پہلی جنگ عظیم (1914-1918) میں اتحادی فوجوں نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے چاروں طرف سے گھیر کر اس پر حملہ کر دیا۔ اتحادی فوجیں اناطولیہ میں داخل ہو کر استنبول پر بھی قبضہ کرنا چاہتی تھیں۔ سامسون شہر جغرافیائی طور پر ایسی جگہ واقع تھا جہاں سے اتحادی فوجیں مرکز سلطنت عثمانیہ میں داخل ہو کر اناطولیہ پر قابض ہو سکتیں تھی۔ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے
اتا ترک اپنے ساتھیوں کے ساتھ 16 مئی 1919 کو استنبول سے سامسون کے دفاع کے لیے روانہ ہوئے ۔ انہوں نے یہ مشہور تاریخی سفر ” باندرما” نامی کشتی کے ذریعے کیا۔ وہ 19 مئی کو سامسون شہر پہنچے جو اس وقت برطانوی فوجوں کے قبضے میں تھا۔ شہر میں انگریز فوجیں دندناتی پھر رہی تھیں اور مقامی لوگ خوف و ہراس کا شکار تھے ۔ سامسون سے اتحادی افواج کو نکالنا بہت ضروری اور انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔
اتا ترک نے جدوجہد آزادی کا آغاز یہیں سے کیا۔ ان کا نعرہ تھا ؛
” Ya İstiklal Ya Ölüm ”
یعنی ” یا آزادی یا موت ”
اتا ترک نے آہستہ آہستہ بکھری ہوئی ترک فوجوں سمیت ترک نوجوانوں کو جمع کیا ۔ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور اتحادی فوجوں کے خلاف جدوجہد آزادی کا آغاز کر دیا ۔ان کی اس کاوش سے اتحادی فوجوں کو منہ کی کھانا پڑی اور وہ شکست اور اپنے عزائم میں ناکامی دیکھ کر فرار ہوگئے ۔
29 اکتوبر 1923 کو ترکیہ کی آزادی کے بعد اتا ترک نے 19 مئی کو ” قومی تہوار ” کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور اس دن کو ” یوم نوجوانان و کھیلوں کا قومی تہوار ” قرار دیا۔
19 مئی کو بانی ترکیہ اتا ترک مصطفیٰ کمال پاشا کو بھی یاد کیا جاتا ہے اور ترکیہ کے لیے ان کی خدمات اور کارناموں کو اجاگر کیا جاتا ہے ۔ لوگ ان کے مزار پر جاتے ہیں اور فاتحہ خانی کرتے ہیں۔
اتا ترک نوجوانوں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور انہیں اپنے افکار اور ترکیہ کے مستقبل کا معمار کہتے تھے ۔ اتاترک نے نوجوانوں کو اپنا حقیقی وارث قرار دیا۔ وہ نوجوانوں کی بارے میں بہت پر امید تھے۔
نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کا مشہور قول ھے ؛
“ Gençler ! Benim gelecekteki emellerimi gerçekleştirmeyi üstlenen gençler!
Bir gün bu memleketi sizin gibi beni anlamış bir gençliğe bırakacağımdan dolayı çok memnun ve mesudum”۔
ترجمہ؛
” نوجوانوں!
وہ نوجوان ! جو میرے مستقبل کے عزائم کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔
میں بہت خوش اور مسرور ہوں کہ ایک دن میں یہ ملک آپ جیسے نوجوانوں کے پاس چھوڑوں گا جو مجھے سمجھتے ہیں۔”
19 مئی کو ترکیہ میں نوجوانوں کے لیے مختلف سرگرمیاں، پروگرامز اور تقاریب منعقد کی جاتیں ہیں اور مختلف کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔
اس دن جوانوں کے اہمیت کو اجاگرکیا جاتا ہے اور کھیلوں کی زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کا اعادہ کیا جاتا ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو نوجوان کسی بھی ملک کے مستقبل کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ۔ اگر کسی قوم کے نوجوان انتہائی متحرک اور سہولتوں سے آراستہ ہوں گے تو اس قوم کا مستقبل تابناک اور انتہائی روشن ہوگا۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور مواقع فراہم کریں ۔ ان کی تعلیم اور روزگار کے لیے اقدامات کریں اور کھیلوں پر توجہ دیں ۔ اگر کھیلوں کے گراؤنڈ آباد ہوں گے تو ملک میں امن اور بھائی چارے کا فروغ ہوگا ۔
وطنِ عزیز پاکستان کی 64 فیصد سے زیادہ آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ یہ نوجوان بہت متحرک اور کچھ کر گزرنے کے جذبے سے معمور ہیں ۔ لہٰذا ضرورت کی سمجھ کی ہے کہ ان نوجوانوں کو مثبت سمت دے کر انہیں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے تیار کیا جائے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح، بانی پاکستان بھی نوجوانوں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور انہیں مستقبل کا معمار اور ملک کا وارث کہتے تھے ۔ انہوں نے نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے محنت ، محنت ، اور کام ، کام کا درس دیا۔
علامہ محمد اقبال بھی نوجوانوں کو اپنے افکار کا مرکز اور انہیں ” شاہین ” قرار دیتے ہیں اور وہ نوجوانوں کو اپنی امیدوں کا محور سمجھتے ہیں۔
حکیم الامت ، شاعر مشرق اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ نے نوجوانوں کے لئے یوں کہا ہے ؛
محبت مجھے ان جوانوں سے ھے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند