turky-urdu-logo

زرا چاند تک

تحریر : اسلم بھٹی

3 مئی بروز جمعہ 2024 کو 2 بج کر 17 منٹ پر پاکستان نے اپنا پہلا مشن چاند پر بنام ” آئی کیوب- کیو ” بھیجا۔ یہ مشن پانچ دنوں میں اپنی منزل یعنی چاند تک پہنچے گا . تین سے پانچ ماہ تک چاند کے گرد چکر لگائے گا اور وہاں سے چاند کی نایاب تصاویر اور معلومات بھیجے گا۔

بلا شبہ یہ ایک انتہائی تاریخی لمحہ اور ناقابلِ فراموش واقعہ ہے اور چاند کی تسخیر کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس عظیم الشان کامیابی پر ہمارے سائنس دان , انجینیئرز اور سارا متعلقہ عملہ قابل تحسین ہے ۔ ان کی اس سلسلے میں کاوشیں سرہانے کی قابل ہیں ۔ خاص طور پر انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اور سپارکو نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔

اگرچہ دنیا میں چاند پر یہ کوئی پہلا مشن نہیں ہے تا ہم پاکستان کی خلائی تسخیر کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک اہم قدم ہے۔ ترقی یافتہ ممالک تو اس شعبے میں بہت ترقی کر چکے ہیں لیکن ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک بھی آہستہ آہستہ اس شعبے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے خلائی تسخیر اور فلکیات سے متعلق اداروں کو مسلسل متحرک رکھیں اور اس میدان میں نام پیدا کرنا جاری رکھیں۔

رہبر کے نام سے پاکستان نے اپنا پہلا سیٹلائٹ 1962 میں ایشیاء میں جاپان اور اسرائیل کے بعد خلا میں بھیج کر سب کو حیران کر دیا تھا۔

اگرچہ ہمارے سائنس دان ، ماہر فلکیات اور انجینیئرز ، سپارکو اور انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی جیسے اداروں میں مختلف جہات پر کام کر رہے تھے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل ہندوستان نے چندریان کے نام سے جب اپنا مشن چاند پر بھیجا تو بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ہمیں بھی اس جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ہمارے سائنس دانوں نے2022 سے چاند پر مشن بھیجنے کی تیاریاں شروع کر دیں تھیں اور مناسب وقت کا انتظار تھا۔

آنے والا دور ایجادات اور دریافتوں کا دور ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ان ایجادات اور دریافتوں کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ آئے روز نت نئی ایجادات اور دریافتیں ہو رہی ہیں۔ یقیناً بحیثیت قوم ہمیں اس میدان کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دنیا میں ایک باوقار ملک اور قوم کا اعزاز اور مقام حاصل کر سکیں۔ ہمیں اپنے سائنس دانوں ،انجینیئرز ماہر فلکیات ،سپارکو اور انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی جیسے اداروں اور ان سے منسلک لوگوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنا چاہیے اور ان کی تمام ضروریات کو پورا کر کے اس فائدے مند شعبے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

وطن عزیز میں ایسے بے شمار ادارے اور افراد موجود ہیں جو ملکی ترقی اور اسے اہم مقام دلانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ان اداروں اور افراد کی حکومتی سطح پر سرپرستی کی ضرورت ہے۔

ویسے بھی علم مومن کی گمشدہ میراث ہے ۔ یہ جہاں سے ملے، لے لینا چاہیے اور جدھر سے ملے حاصل کرنا چاہیے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ علم دینے والا کون ہے۔ نیز علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے وہ تو ویسے ہی ہمارا ہمسایہ اور ہمارا دوست ملک ہے جس کی دوستی سمندر سے گہری ، کوہ ہمالیہ سے بلند اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔

یہ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے اور کوئی ملک بھی اپنی ضروریات کی تمام چیزیں خود نہیں بنا سکتا۔ اسے بین الاقوامی مارکیٹ یا دوسرے ممالک سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لہذا یہ بحث صرف برائے بحث ہے کہ چین سے ہمارا خلائی مشن بھیجا گیا۔ چین نے ہمیں کہاں سپورٹ نہیں کیا۔ آپ اپنی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں۔ چاہے وہ ہندوستان کے ساتھ جنگیں ہوں یا آپ کا ایٹمی پروگرام ہو ، یا آپ کے اقتصادی مسائل ہوں، چین نے سفارتی سطح پر کشمیر اور دیگر تنازعات میں آپ کا ساتھ کہاں نہیں دیا ۔ لہٰذا حب الوطنی جو کہ ایمان کا حصہ ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے وطن کی کامیابیوں پر خوشیاں منائیں اور اس سے متعلقہ لوگوں کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی کوششوں کو سراہنا چاہیے ۔ ان کا حوصلہ اور عزم بڑھانا چاہیے ۔ ان کے کندھوں پر تھپکی دینے کی ضرورت ہے۔

چندریان مشن کے خلا میں بھیجے جانے پر اپنے ملک کو کوسنے والوں کو اب اپنے ملک کی طرف سے خلا میں بھیجے جانے والے آئی کیوب- کیو مشن کی کامیابی پر بھی دل کھول کر داد دینی چاہیے۔ آخر کار یہ ہمارا وطن ہے اور وطن کس کو پیارا نہیں ہوتا ؟

Read Previous

نوبل انعام یافتہ امریکی ماہرِ معاشیات کی فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والے طلباء کی حمایت

Read Next

ٹکا کراچی اور الخدمت فاونڈیشن کے زیر اہتمام ریسکیو ٹرینینگ پروگرام کا انعقاد

Leave a Reply