turky-urdu-logo

پاک افغان آبی تنازعہ "معاہدہ نہیں ہوا، تو تباہ ہوجائیں گے”

رپورٹ: شبیر احمد

پاک افغان کشیدگی میں اس وقت اضافہ دیکھا گیا جب پچھلے سال پاکستان میں سرحد پار سے دہشت گردانہ کارروائیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔ ان پرتشدد حملوں میں جنوری میں پولیس لائن پشاور اور دسمبر میں ڈی آئی خان جیسے بڑے حملے شامل ہیں۔تاہم، صرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی افغان سرزمین پر موجودگی دونوں ممالک کےدرمیان تنازعے کی واحد وجہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پانی بھی اس وقت پاک افغان کشیدگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ آبی تنازعہ 2016 سے جاری ہے جب بھارت نے افغانستان میں دریاؤں پر ڈیم بنانے کے لیے افغانستان کی معاونت شروع کی۔

امارت اسلامیہ کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو ان ڈیموں کی تعمیر ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھی۔ امارت اسلامیہ کے فیصلے کے مطابق 34 صوبوں کے 420 اضلاع میں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں گے۔ ان میں اکثر ڈیموں پر اس وقت کام زور و شور سے جاری ہے، جس میں دریائے کنڑ پر تعمیر ہونے والا ‘کنڑ ڈیم’بھی شامل ہے۔

افغانستان کے وزارت توانائی کے وزیر کے مطابق کنڑ ڈیم پرکام کے لیے بھارتی کمپنی کے ساتھ بات چیت جاری ہے، اس سے 45 میگاواٹ بجلی تیار ہوگی جس سے زراعت کے علاوہ پانی کا انتظام بھی بہتر ہوگا۔ اس سے پہلے نائب وزیر اعظم برائے معاشی امور ملا عبدالغنی برادر نے کہا تھا کہ افغانستان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دریائے کنڑ کا بہاؤ روکا جائے ۔

ان دونوں بیانات کے جواب میں بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امارت اسلامیہ کا یہ فیصلہ یکطرفہ ہے، پاکستان کو اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تو سخت نتائج نکلیں گے۔

پاکستان کا خیال ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان میں پانی کی منتقلی متاثر ہوگی جبکہ ترجمان امارت اسلامیہ ذبیح اللہ نے اس کی تردید کی ہے۔

دریائے کنڑ کیا ہے؟

ترکیہ اردو سے بات کرتے ہوئے چیئرمین سندھ طاس کونسل سلیمان خان نے کہا کہ "دریائے کنڑ کو عمومی طور پر دریائے چترال کہا جاتا ہے۔ پاکستان سے شروع ہونے والا دریائے چترال دریائے کنڑ کا معاون دریا ہے جبکہ دریائے کنڑ دریائے کابل سے جا ملتا ہے۔ اسی طرح دریائے کابل آگے اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے”۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے حوالے سے سندھ طاس معاہدہ موجود ہے۔ بھارت پاکستان میں داخل ہونے والے کسی بھی دریا پر ڈیم بناتے وقت اس معاہدے کے لائحہ عمل اور ضابطہ اخلاق کا پابند ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ افغانستان قانونی طور پر ہزاروں ڈیم بنانے کا مجاز ہے۔

سلیمان خان کہتے ہیں کہ "ہم نے بارہا مطالبہ کیا کہ اس معاہدے کی اشد ضرورت ہے۔ دریائے کابل پر ڈیم بنانے کے بعد پاکستان میں 7 سے 8 ملین ایکڑ فٹ پانی کم ہو جائے گا۔ سابق چیئرمین واپڈا جنرل (ر) مزمل حسین کے دور میں پاکستان نے تجویز دی تھی کہ ایک کابل ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنادی جائے جس میں تمام ٹیکنیکل اور فنانشل مدد پاکستان دے گا۔ اس کے نیتجے میں دریائے کابل سے افغانستان کی آبی ضروریات بھی پوری ہوتیں اور پاکستان کا نقصان بھی نہ ہوتا۔

پاک افغان آبی معاہدہ کیسے فائدہ مند ہوگا؟

جنرل مزمل اس حوالے سے کافی سنجیدہ تھے۔ دریائے کابل اور اس کے معاون دریا پر افغانستان کا 85 فیصد علاقہ آباد ہے، 15 فیصد علاقے کو اس وقت پانی کی ضرورت ہے۔ یہاں ڈیم فائدہ مند اس لیے ہونگے کہ بارشوں کے دنوں میں پانی کو روکا جائے گا، اس سے بجلی پیدا کی جائے گی اور ضرورت کے تحت اس کا استعمال ہوگا۔ اس کی تعمیر کے بعد ان علاقوں میں سیلاب کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔

کنڑ ڈیم کوئی چھوٹا ڈیم نہیں، لامحالہ اس کی تعمیر سے پاکستان پر اثر پڑے گا۔ اس کے برعکس دونوں ممالک اگر معاہدہ کرلیں تو یہ کابل اور اسلام آباد، دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ سلیمان خان کے مطابق "معاہدے سے ڈیموں میں پانی کی سٹوریج اور بہاؤ میں توازن آ جائے گا۔ سیلاب کے دنوں میں پانی روکا جائے گا جبکہ ضرورت کے وقت ڈیموں کو کھول دیا جائے گا۔ کیونکہ دریائے کابل دریائے سندھ میں سیلاب کا باعث بنتا ہے۔ اسی لیے ہم کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر زور دے رہے تھے۔ اگر وہ ڈیم بن جاتا تو حالیہ دنوں میں سیلاب کی وجہ سے سندھ میں اتنی تباہی نہیں ہوتی”۔

سلیمان خان سمجھتے ہیں کہ "ڈیموں کی تعمیر کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ پانی کو مستقل بنیادوں پر روک دیا جائے۔ ایک خاص مرحلے پر اس کا بہانا لازمی ہو جاتا ہے۔ معاہدے کی روسے سیلاب کے دنوں میں پانی روکا جائے گا، افغانستان اس سے ضرورت کے تحت بجلی پیدا کرے گا اور اپنی زراعت کی ضروریات پوری کرے گا۔ جبکہ پاکستان ایک بڑی تباہی سے بچ جائے گا۔ اس لیے معاہدہ دونوں ممالک کے لیے سود مند ہے۔

انہوں نے کہا کہ "معاہدے کی غیر موجودگی کا نقصان وہی ہوگا جس خدشے کا پاکستان اس وقت اظہار کر رہا ہے۔ افغانستان اپنی مرضی سے پانی روکے گا اور اپنی مرضی سے پانی چھوڑ دے گا۔ پاکستان کو ضرورت نہ ہو اور پانی چھوڑا جائے تو سیلاب آئے گا۔ اس لیے معاہدے کے بغیر اگر دشمنی کی بنیاد پر برسات کے دنوں میں پاکستان پر پانی چھوڑ دیا گیا تو محض نقصان نہیں، تباہی ہو گی۔

Read Previous

ٹکا کے کو آرڈینیٹر محسن بالچی کامانسہرہ میں نیشنل ٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا دورہ

Read Next

فلسطین ہمارا برادر ملک ہے، ہم ہمیشہ انکے ساتھ کھڑے ہیں،ترک ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹ

Leave a Reply