
تحریر: قدسیہ جبیں
غزہ کے علاقے خان یونس میں 1978 پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے سامر نے ازھر یونیورسٹی سے صحافت میں گریجویشن کی ڈگری لی۔ اور اسکے ساتھ ہی عملی دنیا میں قدم رکھ دیا ۔
غزہ میں الجزیرہ کے مرکزی دفتر کی بنیاد رکھنے والی اولین ٹیم میں سامر شامل تھے۔ وہ فوٹو گرافی اور مختلف پروگراموں کی فنی تدوین و پیشکش کے ماہر تھے ۔
لیکن ان کی بڑی پہچان ان کی جرات اور اپنے لوگوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔
اپنے بیس سالہ کیرئیر میں انھیں کئی بار باہر جانے اور کان کرنے کا موقع ملا ۔ ان کے پاس بلجئیم کی نیشنلٹی بھی تھے اور ان کا بال بچہ بھی تعلیم کی غرض سے بلجئیم ہی میں مقیم تھا۔ مگر انھوں نے خود بلجئیم میں اہنے خاندان کے ساتھ رہنے کی بجائے غزہ میں رہنے کو ترجیح دی تا کہ بہتر طور پر اس ظلم کی داستان کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دنیا تک پہنچا سکیں۔
الجزیرہ کے سینئر صحافی وائل الدحدوح (جن کے خاندان کے بہت سے لوگ ٹارگٹ کر کے شاید کیے گئے اور جو آخری وقت میں سامر کے ساتھ مشن پر تھے )بتاتے ہیں کہ سامر ہمیشہ سے ایسی پر خطر جگہوں اور میدانوں میں جانے کو لپکتا تھا جہاں جانے خود موت کو دعوت دینا ہوتا۔ اور میں اس کے جذبے ، جوش اور لگن کو سراہنے کے ساتھ ساتھ اسے ہمیشہ کہا کرتا ” سامر ! ذرا سنبھل کے ۔۔۔ کہیں تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچ جائے "
اپنی شہادت سے کچھ عرصہ قبل وہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے بلجئیم۔گئے تھے اور اس کوشش میں بھی تھے کہ حالات بہتر ہوں تو بچوں کو غزہ لے آیا جائے۔
15 دسمبر کو جب فرحانہ سکول کے ارد گرد شدید بمباری ہوئی تو وائل اور سامر دونوں ایک ایمبولنس میں ان علاقوں کی تباہی کی رپورٹنگ کے لیے گئے۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد یہ دونوں مدرسی فرحانہ کی جانب پیدل ہی چل پڑے کیونکہ وہاں ایمبولنس کا جانا مشکل ہو رہا تھا ۔
اسی دوران میں پہلا فضائی حملہ ہوا ۔۔ دونوں اک دوسرے سے دور زخمی ہو کر گر پڑے۔ وائل کے چونکہ بازو میں زیادہ زخم تھے اس لیے وہ سنبھلنے ہر سڑک کی جانب چکنا شروع ہو گئے تا کہ کسی ایمبولنس تک پہنچ سکیں۔ بتاتے ہیں کہ مجھے سامر کی مدد کے لیے پکارنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور ان کی حالت دیکھ کر میری پہلی کوشش یہی تھی کہ جلدی کسی ایمبولنس تک رسائی ملے اور ہم سامر کو اس کے ذریعے ہسپتال منتقل کریں۔ کیونکہ ان کا نچلا دھڑ بری طرح مجروح تھا ان کے کیمرے کے ٹکڑے ٹوٹ ان کے جسم میں دھنس چکے تھے ۔ اور خوں بری طرح بہہ رہا تھا۔ اوائل خوش قسمتی سے نہ صرف ایمبولنس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے بلکہ دیگر افراد تک اطلاع پہنچتے ہی کئی لوگ سامر کو بچانے کے لیے ان کی جانب گئے مگر اسی اثنا میں سامر پر دوسرا فضائی حملہ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک ایمبولنس ڈرائیور سمیت بہت سے دیگر افراد بھی شدید زخمی اور شہید ہو گئے۔
فائرنگ اور بم باری کی بارش میں سامر چھ گھنٹے تک لگاتار بہتے خون کے ساتھ زمین پر پڑے رہے۔
بچانے والے بموں اور فائرنگ کی زد میں آتے رہے ۔اور جب آخر کار سامر تک پہنچ ہوئی تو ان کے کوچ کاوقت آن پہنچا تھا ۔
یاد رہے کہ 1992 کے بعد ظالموں کے ظلم کی سب سے موثر اور جاندار عکس بندی کا سہرا سامر کے سر ہے۔
سامر کی شہادت بمباری کی زد میں آکر نہیں بلکہ ٹارگٹ کر کے حملہ کرنے کے سبب ہوئی۔
اس وقت تک غزہ میں 90 صحافی اس زد میں آکر اپنے خون سے حق کی گواہی دے چکے ہیں۔
لیکن نہ ہٹنے پر تیار ہیں نہ اپنے کام۔سے رکنے پر۔
ڈاکٹرز ، پیرا میڈیکل سٹاف ، کھانا بنانے والے ،
تصاویر ، وی لاکس اور وڈیوز بنا کر بھیجنے والے ،
زخمی بچوں کو گود میں لے کر پچکارںے والے یہ سب کس مٹی کے بنے کہاں سے آئے انسان ہیں۔ ان کے وجود کا خمیر سے اٹھا ہے کہ انھیں جھکنا نہیں آتا۔ ۔۔۔۔۔۔
اب بتائیے یہ بہتا خون سرخرو ہے یا ناکام۔ ۔ !!!!!!!!!
اور بہتے شفاف خون کے آئینے ہم اپنی شکل دیکھیں تو بخدا ڈر جائیں