turky-urdu-logo

14 مئی انتخابات: مغرب ایردوان کو ہرانا کیوں چاہتا ہے ؟

(حماد یونس،لاہور)

گلوبل ڈائیلاگ فار پیس کی جانب سے ویب سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں ترک سیاسی منظر نامے اور 14 مئی کے صدارتی انتخابات کے متوقع نتائج پر گہری نظر رکھنے والے صاحب الرائے ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن مشاہد حسین سید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کا یہ پروپیگنڈہ کہ ایردوان کی شکست دنیا بھر میں لبرل ڈیموکریسی کی فتح ہو گی، ایک واضح جھوٹ ہے ۔ ایردوان نے نا صرف ترکیہ بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت کے استحکام کے لیے کام کیا ہے۔ مصر ، بنگلہ دیش ، انڈونیشیا سمیت جہاں بھی جمہوریت کو سبوتاژ کیا گیا تو اس پر سب سے توانا آواز صدر ایردوان ہی کی تھی ۔ 15 جولائی 2016 ایک واضح ثبوت ہے کہ ایردوان جمہوریت کے بنیادی نمائیندے ہیں جبکہ مغرب اپنے فیٹو جیسے نمائندوں کے ساتھ فاشزم کا سرپرست ہے۔
البتہ امریکہ اور مغرب ایردوان کی پان اسلامک اپروچ سے ہراساں ہیں اور کلچدار اولو کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں تاکہ فلسطین، کشمیر ، مصر ، بنگلہ دیش ، میانمار سمیت دنیا بھر میں مظلوموں کی آواز کو دبایا جا سکے۔

مشاہد حسین نے صدر ایردوان کی جانب سے انقرہ میں قائم کردہ لیگ آف پارلیمنٹیرینز فور القدس کا تذکرہ بھی کیا ، جو مسجد اقصیٰ کے تحفظ کا جذبہ رکھنے والے دنیا بھر کے پارلیمنٹیرینز کی ایک مجلس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایردوان کی شکست کا سب سے بڑا نقصان مسلم امہ کو ہو گا ،
پاکستانیوں کی بھی ایردوان سے قلبی و جذباتی وابستگی ہے لیکن ترکیہ پاکستان رشتہ کسی بھی فردِ واحد سے بالاتر ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان خارجہ امور کے سربراہ آصف لقمان قاضی نے بھی انتخاباتی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایردوان کو ترکیہ میں ملی یا اسلامی ویژن کا علمبردار سمجھا جاتا رہا ہے، مگر اس بار انتخابات میں سعادت پارٹی اپوزیشن اتحاد میں ہے ، جبکہ ایردوان اور فاتح اربکان دونوں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں جس سے اسلامی ووٹ تقسیم ہو سکتا ہے۔ صدر ایردوان نے حجاب پر پابندی ہٹا کر جس اسلامی سفر کا آغاز کیا وہ مغرب کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے،
جبکہ کلچدار اولو ایک کمزور شخصیت ہیں ، جن کی جیت مغرب کے لیے فائیدے کا سودا ہو گا کیونکہ ایک کمزور شخصیت کو اپنے ایجنڈے پر گامزن کرنا آسان ہو گا۔

ترک صحافی اور انادولو ایجنسی کے ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ و افریقہ توران کِشلاکچی نے بتایا کہ صدر ایردوان کے 20 سالہ دور حکومت میں ترکیہ نے ترقی کا بے مثال سفر طے کیا، صحت ، ٹرانسپورٹ ، دفاع اور تعلیم میں ترکیہ بہت آگے بڑھ گیا ، البتہ فنونِ لطیفہ ، کلچر وغیرہ پر ایردوان نے توجہ نہیں دی ، جس کی وجہ غالباً ان کی اسلامسٹ اپروچ تھی ۔
توران نے بتایا کہ سنان اوغان کے بھی صدارتی انتخابات سے دستبردار ہو جانے کے بھی واضح امکانات ہیں جس سے پہلا مرحلہ ہی حتمی مرحلہ بن جائے گا۔

ترک صحافی اور ٹی آر ٹی کے تجزیہ کار ڈاکٹر فرقان حمید نے کہا کہ حالیہ انتخابات کی اہمیت ماضی کے تمام انتخابات سے بڑھ کر ہے۔
صدارتی امیدوار محرم اِنجے کا اچانک دستبردار ہونا ایردوان کے خلاف جبکہ کلچدار اولو کے حق میں کام کرے گا ، عین ممکن ہے کہ یہ ایردوان کی شکست میں کلیدی کردار ادا کرے۔

استنبول میں مقیم محقق احسن شفیق نے کہا کہ ایردوان نے دنیا بھر میں ظلم کے شکار مسلمانوں کو ترکیہ کے پناہ دی مگر اپوزیشن اسی امر کو ان کے خلاف استعمال کر رہی ہے ۔ ایردوان ترکیہ کی معیشت کو ایردوان بہت اوپر لے گئے اور کبھی 1 ڈالر 2500 لیرا کے برابر تھا جو آج 19 لیرا تک پہنچ چکا ہے۔

 

Read Previous

ترکیہ اب اپنی پیداوار، روزگار اور برآمدات کے ساتھ ایک عالمی طاقت بن چکا ہے،صدر ایردوان

Read Next

صدر ایردوان اپنی انتخابی کامیابی کی خصوصی دعا آیا صوفیہ میں کریں گے

Leave a Reply