turky-urdu-logo

قطر :جدّت، عزت اور شناخت کی تلاش میں

تحریر: محمد عبدالشکور

(نائب صدر الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان)

قطر (دوحا) میرے لئے کبھی اجنبی نہیں رہا۔ پہلی بار 1995 میں میں یہاں آیا تھا۔ اُس وقت کے دوست زاہد اعوان، ادریس انور، شیر علی اور راجہ ذوالفقار آج بھی بازو کھولے خوش آمدیدی کلمات کہنے کے منتظر رہتے ہیں۔ قطر میں ہر بار خوشگوار تبدیلی دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔

اس بار میری آمد میں البتہ کرونا وبا کے باعث کئی سال کی تاخیر ہوئی۔ پرسوں ( ہفتہ 25 مارچ) جب میں الجزیرہ ٹی وی پر ترکیہ اور شام میں زلزلے کے پس منظر میں الخدمت کی سرگرمیوں کے حوالے سے لائیو پروگرام میں شرکت کے لئے جا رہا تھا تو حیرت اور تعجب نے پوری طرح مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ میں سڑک کے دونوں جانب جن اونچی اونچی عمارات کو دیکھنے کا عادی تھا انہیں مکمل طور پر گِرا کر خوبصورت پہاڑی نما پارکوں اور باغیچوں میں بدلا جا چکا تھا۔ سمندر کنارے جاذبِ نظر کشتیوں کی قطاریں سیاحوں کی منتظر تھیں اور ان سیاحوں کے لئے پُر تعیش ہٹس (Huts) جا بجا نظر آرہے تھے۔

الجزیرہ کے دفاتر کا اندرونی منظر
بی بی سی اور سی این این سے کسی طور کم پُرکشش نہ تھا۔
الجزیرہ عربیہ اور الجزیرہ انگلش چینل نے مشرق وسطی میں ابلاغ کے میدان میں جو گہرے نقوش چھوڑے ہیں اس خطے میں کوئی دوسرا ملکی یا بین الاقوامی چینل اس کا مقابلہ نہیں کر پایا۔

فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد اور تیاریوں نے قطر کو بالکل نیا رنگ اور روپ عطا کیا ہے۔ سڑکوں، پارکوں، ہوٹلوں، سمندر کنارے سیر گاہوں، مسجدوں اور مسلم تہذیب کے مقامات کو نیا حسن اور مفہوم ملا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک چھوٹے سے ملک قطر نے، جس کی کل آبادی ہمارے وطن پاکستان کے کسی اوسط شہر کے برابر بھی نہیں، مسلم تہذیب و تمدن کا جس استقامت،حکمت اور جرآت سے اظہار وپرچار کیا ہے، اس نے ایک دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ ایل جی بی ٹی کی خوفناک حد تک مضبوط لابی کا راستہ روکنا اور انہیں یہ بتانا کہ
“ چند ہفتوں کے کھیل کی خاطر ہم اپنی خوبصورت مسلم تہذیب کو دیس نکالا نہیں دے سکتے”

کوئی آسان کام نہ تھا۔ پوری مسلم دنیا اس غیر متزلزل موقف پر قطر کی ممنونِ احسان ہے۔ پرسوں جب احمد طور، محمدادریس خاں، خالد بھٹی، حافظ ابراہیم اور میں کتارہ کے علاقے میں گھُوم رہے تھے تو ہمیں ایک مسجد کے احاطے میں کئی یوروپین سیاح نظر آئے جنہیں سرکاری طور پر متعین قطری مبلغین اسلام کے عقیدے اور تہذیبی کشش سے متعارف کروا رہے تھے۔

قطر میں پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد (تقریباً دو لاکھ) مقیم ہے۔ آغاز میں زیادہ تر پاکستانی مزدور پیشہ تھے، آہستہ آہستہ بزنس مین، انجینئرز اور ڈاکٹرز کی تعداد بڑھتی چلی گئی ۔ پُر امن حالات، خوشگوار ماحول اور تہذیب دوست ماحول کے باعث امریکہ کینیڈا اور برطانیہ سے آئے ہوئے بہت سے پاکستانی نژاد ڈاکٹرز اور انجنئرز میں نے یہاں شفٹ ہو کر کام کرتے دیکھے ہیں۔
یہ محض اللہ کا شکر اور کرم نوازی ہے کہ یہاں کے پاکستانیوں اور قطری انتظامیہ میں الخدمت فاؤنڈیش پاکستان نہ صرف پوری طرح متعارف ہے بلکہ ہر مکتبہ فکر میں بہت احترام سے دیکھی اور پہچانی جاتی ہے۔
میرے یہاں قیام کے دوران برادرم ادریس انور صاحب نے پاکستان ویلفیر فورم اور پاکستان بزنس فورم کی میٹنگ کا اہتمام اور میزبانی کی۔حلقہ احباب قطر نے قطر چیریٹی کے تعاون سے خوبصورت اور بھرپور افطار کا اہتمام کیا اور ڈاکٹر نعیم برگ اور محمد ادریس نے اہل سوات اور پاکستانی ڈاکٹرز کے ساتھ ایک عمدہ نشست/افطاری کا اہتمام کیا۔ یہ سارے پاکستانی اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے لئے بہت بیقرار نظر آئے۔مجھے جن جن افراد کو جب جب الخدمت کے تعمیرِ وطن پروگرام کو متعارف کروانے کا موقع ملا، پاکستانیوں کی آنکھوں میں چمک اورمحبت کے آنسو ڈھلکتے نظر آئے۔

قطر اس لحاظ سے بھی قابلِ فخر ہے کہ اس نے اپنے پڑوسیوں کی جانب سے دباؤ اور بائیکاٹ کا بہت پُر عزم ہو کر با وقار انداز میں مقابلہ کیا۔

افغانستان پر غیر ملکی قبضہ کے خلاف ہونے والی جد وجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے افغانیوں کو مذاکرات کی مسلسل سہولت کاری فراہم کی۔

جب دنیا کی سُپر پاورز نے قطر پر دباؤ بڑھایا کہ وہ عالمِ اسلام کے عظیم مفکر علامہ یوسف قرداوی کو اپنے ہاں سے ملک بدر کر دے، تو قطری حکمرانوں نے خندہ پیشانی سے اس پریشر کو بھی برداشت کیا، مگر اپنی اور اپنے مہمان کی عزت پر حرف نہ آنے دیا اور انہیں اپنا مہمان بنائے رکھا۔ علامہ یوسف قرضاوی مصری شہری تھے اور وہاں کے ظلم و جبر سے تنگ آکر قطر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔علم، امید اور حوصلے کا نشان یہ عظیم انسان فیفا کپ کے مقابلہ جات ہی کے دوران اللہ کو پیارا ہوگیا اور قطر ہی میں دفن ہوا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے 2013 کی ایک دوپہر جب مرحوم عبدالغفار عزیز ، ڈاکٹر حفیظ الرحمان (الخدمت کے موجودہ اور اُس وقت کے صدر)، ڈاکٹر نجیب الحق( پشاور میڈیکل کالج کے ڈین) اور میں علامہ یوسف قرداوی سے ملنے دوحا ان کے دفتر پہنچے تھے۔ بہت ہی خوشگوار ماحول میں ڈاکٹر نجیب نے قرضاوی صاحب سے پوچھا “مسلم اُمّہ کے اہل دانش کو کون سے کام کو اپنی ترجیح اوّل بنانا چاہئے”

کسی توقف اور لگی لپٹی کے بغیر انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا
“مسلم اکثریتی ممالک میں تعلیم جبکہ غیر مسلم آبادیوں میں دعوت کو ہماری ترجیح اوّل ہونا چاہئے”
تعلیم ہماری ترجیحِ اوّل ہو،
کاش ایسا ہو پاتا۔
تعلیم ہماری ترجیح؛
میں ایک زمانے سے اسے ڈھونڈ رہا ہوں
یہ ایک زمانے سے خدا جانے کہاں ہے

Read Previous

پاکستانی سفارتخانے کی برسلز انٹرنیشنل فیسٹیول میں شرکت

Read Next

پاک بحریہ کا امدادی جہاز "معاون”  شامی بندر گاہ پہنچ گیا

Leave a Reply