ایران اور ترکی کے درمیان مختلف امور پر اختلافات پائے جاتے ہیں جن میں ایراق میں نئی حکومت کے علاوہ سنجر کے علاقے پر ترک قبضہ اور درائے ارس اور تگریس پر ڈیموں کی تعمیر ہے۔
پانی پر اختلافات کو پہلے دونوں ممالک کے درمیان سفارتکاروں کی سطح پر ہی زیر بحث لایا جاتا تھا لیکن پہلی بار ایرانی وزیر خارجہ حسین عامر عبداللہایان نے پارلیمنٹ میں ایک بیان میں ترکی پر الزام عائد کی ہے کہ ترکی کے اقدامات پانی میں کمی اور ماحولیات کو نقصان دینے کا باعث بنیں گے۔
کیوں کہ ترکی ٹرانس باونڈری پانیوں پرنیویارک کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے اسلیئے ایران کے پاس اسکے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی اس مسئلے کا حل نکالے۔ کیوں کہ ایران قانونی طور پر ترکی کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں کیس نہیں کرسکتا ۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے اپنے ترک ہم منصب سے اس معاملے پر متعدد بار بات کی ہے ایک مشترکہ کمیشن بنانے کی تجویز بھی دی ہے تاکہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
ایک ایرانی وفد نے ترکی کا گزشتہ برس دورہ کیا جبکہ جلد ہی ترک وفد بھی ایران کا دورہ کرے گا جس میں اس معاملے پر بات چیت کی جائے گی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے اس معاملےپر کہا کہ انکا ملک اس معاملے کو قومی سلامتی کا معاملہ سمجھتا ہے۔
دریائے ارس مشرقی ترکی سے شروع ہوتا ہے اور کئی ایران ،آذربائیجان ، آرمینیا سے گزرتا ہےاور آزربائیجان کے دریائے کورا میں شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے تگریس بھی ایران شام سے ہوتے ہوئے عراق کے دریائے فرات میں جا گرتا ہے۔
تہران کے مطابق ان دریاوں پر ترک ڈیموں سے کئی طرح کے ماحولیاتی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے جسکی وجہ سے گرد کے طوفان اور کئی علاقوں میں قحط کی صورتحال پیدا ہو ئی ہے۔
انہوںنے الزام عائد کیا کہ ان ڈیموں کی تعمیر سے پانی کی بہاو میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
تاہم ترکی ان الزامات کی تردید کرتا ہے ۔
