turky-urdu-logo

برطانیہ اور امریکا کا میانمار پر نئی پابندیوں کا اعلان

امریکا اور برطانیہ نے میانمار میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے خلاف مظالم کو نسل کشی قرار دیے جانے کے بعد فوج کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کردیا ہے۔

ان پابندیوں کا اعلان گزشتہ سال بغاوت کے بعد ہونے والے مظاہروں کے خلاف خونریز کریک ڈاؤن کی برسی کے موقع پر کیا گیا ہے۔

نئے اقدامات ایک ایسے موقع پر سامنے آئیں ہیں جب چند دن قبل ہی امریکا نے کہا تھا کہ میانمار کی فوج روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت کی نسل کشی میں ملوث ہے۔

دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس کے امریکی انڈر سیکریٹری برائے ٹریژری برائن نیلسن نے ایک بیان میں کہا کہ ظلم اور جبر میانمار کی فوجی حکومت کا طرہ امتیاز بن چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹریژری ان لوگوں کا احتساب کرنے کے لیے پرعزم ہے جو اس تشدد اور جبر کے ذمہ دار ہیں۔

واشنگٹن کی پابندیوں کا ہدف دو فوجی کمانڈرز، ایک انفنٹری ڈویژن کے ساتھ ساتھ تین کاروباری افراد اور چار کاروبار ہیں۔

دوسری جانب برطانیہ نے بھی فضائیہ کے نئے سربراہ اور بیلاروس کے اعزازی قونصل کے طور پر کام کرنے والے ایک تاجر کے ساتھ ساتھ ایک کمپنی کو پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے، اس سے قبل امریکا بھی اس کمپنی پر پابندیاں لگا چکا ہے۔

برطانیہ کی وزیر برائے ایشیا امانڈا ملنگ نے کہا کہ میانمار کی فوج نے میانمار کی جانب سے جمہوریت کے لیے لڑنے والے لوگوں کے خلاف تشدد کی وحشیانہ مہم کو روکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں ان لوگوں کو نشانہ بناتی ہیں جو فوج کو ہتھیاروں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ملک بھر میں ہونے والی زیادتیوں میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں۔

فروری 2021 کی بغاوت اور آنگ سان سوچی کی معزولی کے ساتھ ساتھ روہنگیا کے خلاف 2016 اور 2017 میں تشدد کی وجہ سے مغربی ممالک کی جانب سے میانمار پر پابندیوں اور دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔

نئی امریکی پابندیوں کا اطلاق بریگیڈیئر جنرل کو کو او اور میجر جنرل زاو ہین کے ساتھ ساتھ 66 ویں لائٹ انفنٹری ڈویژن پر ہوتا ہے، جس کے بارے میں ٹریژری نے کہا کہ اس پر دسمبر 2021 میں قتل عام کا الزام لگایا گیا ہے اور فوجیوں نے کچھ شہریوں کو مبینہ طور پر زندہ جلا دیا تھا۔

امریکا نے میانمار میں فروری 2021 میں فوجی حکومت کے قبضے کے بعد بھی کئی پابندیاں عائد کردی تھیں، جہاں حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران سیکڑوں شہریوں کا قتل کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اگست 2017 میں میانمار میں مسلمان اقلیت روہنگیا کے خلاف بدترین کارروائیاں کی گئی تھیں، جس کے بعد 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان پڑوسی ملک بنگلہ دیش منتقل ہوگئے تھے جہاں ان کے لیے مہاجر کیمپ تشکیل دیے گئے ہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی بدترین کارروائیوں کا الزام میانمار کی سیکیورٹی فورسز پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔

Read Previous

دبئی: اسکول کے طلباء نے شیزوفرینکس میں دماغی سرگرمی کو پڑھنے کا آلہ ایجاد کر لیا

Read Next

یو این کا اسرائیل کو نسل پرست ریاست سمجھنا فلسطینی کاز کی سچائی پر مہر تصدیق ہے: ڈاکٹر خالد قدومی

Leave a Reply