تحریر:ڈاکٹر محمد مشتاق
ہمارے ہاں کے تجزیہ نگاروں کو قانون سے عموما، اور بین الاقوامی قانون سے خصوصا، کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لیے روس و یوکرین کے تنازعے پر، یا کسی بھی بین الاقوامی تنازعے پر ان کے پاس سواے اس کے کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ مغربی ذرائعِ ابلاغ میں جو کچھ کہا جارہا ہو، اسی میں ذرا دیسی تڑکا لگا کر پیش کیا جائے۔ اب چونکہ روس یوکرین تنازعے میں مغربی ذرائعِ ابلاغ کی پوزیشن یہی ہے کہ روس جارح ہے اور یوکرین کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، اس لیے ہمارے ہاں بھی تجزیہ نگاروں نے اسی لائن کو ٹو کرنا شروع کیا ہے۔ بہت کم کہیں قانونی سوالات پر بحث ہورہی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند بنیادی قانونی اصول مختصرا پیش کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ روس نے اس میں کس اصول کی خلاف ورزی کی ہے؟
بین الاقوامی قانون میں جنگ کے جواز و عدم جواز کے فیصلے کےلیے ایک بنیادی دستاویز اقوامِ متحدہ کا منشور ہے۔ اس منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 3، میں قرار دیا گیا ہے کہ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات پر امن ذرائع سے حل کریں گی۔ اسی دفعہ 2 کی ذیلی دفعہ 4 میں کسی ریاست کی "علاقائی سالمیت” یا "سیاسی آزادی” کے خلاف یا "اقوام متحدہ کے مقاصد” کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ پھر ذیلی دفعہ 7 میں دوسری ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو بھی ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
تاہم اس سوال کا فیصلہ سلامتی کونسل کرتی ہے کہ کسی ریاست نے دفعہ 2 کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں؟ سلامتی کونسل یہ اختیار دفعہ 39 کے تحت رکھتی ہے لیکن سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کو اگر اس کے پانچ مستقل ارکان میں سے کسی ایک نے بھی ویٹو کردیا، تو قرارداد منظور نہیں ہوسکے گی۔ چنانچہ جب پانچ مستقل ارکان اس سوال کا جواب اثبات میں دیں، یا کم از کم اس کے خلاف ووٹ نہ دیں، تب تک سلامتی کونسل فیصلہ نہیں کرسکتی، اور تب تک قانونا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دفعہ 2 کی خلاف ورزی ہوچکی ہے۔
اب خود ہی سوچیے کہ روس کے ویٹو کی موجودگی میں سلامتی کونسل کیسے یہ قرارداد منظور کرسکتی ہے کہ روس نے یوکرین میں جارحیت کی ہے؟
پھر بھی اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ روس کے ویٹو سے قطع نظر "معروضی طور” پر دیکھا جائے کہ روس نے دفعہ 2 کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں، تو اس پر راے دینے سے قبل ذرا اس حقیقت پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے کہ دفعہ کا مفہوم اور مطلب کیا ہے؟ اس پر کوئی اتفاق راے نہیں ہے اور اس کا مفہوم کم از کم دو الگ طریقوں سے متعین کیا جاتا ہے۔ ان میں مفہوم وہ ہے جس پر مغربی ممالک کے چہیتے، بلکہ لاڈلے ملک اسرائیل نے بارہا اصرار کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ دفعہ 2 میں "علاقائی سالمیت” کو نقصان پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے کسی حصے کو الگ کرلے؛ اور اسی طرح "سیاسی آزادی” کو نقصان پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ وہاں کی حکومت فیصلہ کرنے کےلیے آزاد نہ ہو۔ اب دیکھیے کہ روس یوکرین پر مستقل قبضہ تو کرنا چاہتا نہیں ہے (ویسے اسرائیل نے 1967ء سے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، وہ ابھی تک خالی نہیں کیے اور وہ مزید بھی توسیعی عزائم رکھتا ہے)، اور یوکرین کی حکومت تو فیصلوں میں اس حد تک آزاد ہے کہ صدر صاحب زرہ باندھے سڑک پر نکل آئے ہیں!
پھر اس کے ساتھ ذرا دفعہ 51 کا بھی جائزہ لیجیے جو ریاستوں کا حقِ دفاع تسلیم کرتی ہے اور اگرچہ اس دفعہ کے الفاظ میں حقِ دفاع کی اس صورت کا ذکر ہے جب کسی ریاست کے خلاف حملہ ہو (جیسے یوکرین اس وقت اس دفعہ کے تحت حق دفاع کا دعوی کررہا ہے)، لیکن یہاں پھر مغربی ممالک کے لاڈلے اسرائیل کے حق دفاع کی تعبیر دیکھ لیں، برطانیہ اور فرانس کے حق دفاع کی تعبیر دیکھ لیں، یا خود امریکا بہادر کے حق دفاع کی تعبیر دیکھ لیں، اور پھر بتائیں کہ اگر حق دفاع کے نام پر اسرائیل، برطانیہ اور فرانس 1956ء میں مصر کے سویز کینال پر حملہ کرسکتے ہیں اور حق دفاع کے نام پر 2003ء میں عراق پر امریکا اور برطانیہ حملہ آور ہوسکتے ہیں، تو 2022ء میں یوکرین پر حملے کےلیے روس اسی حقِ دفاع کا دعوی کیوں نہیں کرسکتا؟
اب یہ کون سا حق دفاع ہے؟ یہ دفاع کا وہ وسیع تصور ہے جس کے تحت کسی ملک کے مفادات اور بالخصوص شہریوں کو لاحق خطرے سے نمٹنے کےلیے وہ ملک کسی دوسرے ملک میں جا کر بھی کارروائی کرسکتا ہے۔ اسے protection of nationals and interests abroad کا تصور کہتے ہیں۔ اس مقصد کےلیے یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ وہ دوسرا ملک حملہ کرلے تو پھر آپ جوابی کارروائی کریں، بلکہ خطرے کی شدت کا اندازہ کرتے ہوئے آپ پیش بندی کا اقدام بھی کرسکتے ہیں، جسے pre-emptive strike کہا جاتا ہے۔ ستمبر 2001ء میں امریکی صدر بش نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دنیا کے تمام ممالک کے سامنے اپنے لیے اس حق کا اعلان کیا تھا۔ پھر اب روس کیوں اس حق سے محروم ہو، جبکہ آپ نے 1999ء میں چیک ری پبلک، ہنگری اور پولینڈ کو، 2004ء میں سلواکیہ، رومانیہ، لٹویا، لتھوانیا، اسٹونیا اور بلغاریہ کو، اور 2009ء میں البانیا کو نیٹو میں شامل کرلیا اور اب یوکرین بھی پر تول رہا تھا؟ آپ سے ہزاروں میل دور عراق کے خلاف آپ پیش بندی کا اقدام کرسکتے ہیں لیکن روس اپنے بارڈر پر یوکرین کے خلاف نہ کرسکے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
یہ بھی نوٹ کرلیں کہ سولہویں صدی میں پہلے زار آئیون دہشتناک (Ivan the Terrible) کے دور سے روس ہمیشہ سے اپنے لیے حق دفاع کے اس وسیع تصور کا دعوی کرتا آیا ہے۔ اس پر اس بات کا بھی اضافہ کیجیے کہ اقوامِ متحدہ کے وجود میں آنے کے بعد بھی جب بھی کمزور ممالک نے یہ کہنے کی کوشش کی اقوامِ متحدہ سے پہلے ریاستوں کے پاس جو وسیع حقِ دفاع تھا، اسے اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 51 نے محدود کردیا ہے، تو مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا، برطانیہ اور فرانس (اور اسی طرح ان کے لاڈلے اسرائیل) نے اس کے خلاف یہ دعوی کیا کہ اقوام متحدہ کے منشور نے ماقبل منشور حق کو منسوخ یا محدود نہیں کیا ہے۔ بین الاقوامی قانون پر مغربی مصنفین کی لکھی ہوئی کوئی بھی نصابی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں، وہ اپنی ریاستوں کے اس دعوے کو کتنے خوبصورت دلائل سے مزین کرکے پیش کرتے رہے ہیں۔
اب اچانک ان سب نے اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ 2 اور دفعہ 51 کا ورد کیسے شروع کردیا ہے؟ اقبال یاد آگئے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسولینی
(اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے)
کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جُرم!
بے محل بِگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
مَیں پھٹکتا ہُوں تو چھَلنی کو بُرا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار! تُو چھَلنی، مَیں چھاج
میرے سودائے مُلوکیّت کو ٹھُکراتے ہو تم
تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زُجاج؟
یہ عجائب شعبدے کس کی مُلوکیّت کے ہیں
راجدھانی ہے، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج
آلِ سِیزر چوبِ نَے کی آبیاری میں رہے
اور تم دُنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!
تم نے لُوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لُوٹی کِشتِ دہقاں، تم نے لُوٹے تخت و تاج
پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی
کل رَوا رکھّی تھی تم نے، مَیں رَوا رکھتا ہوں آج!
ڈاکٹر محمد مشتاق بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ قانون میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر فرائض انجام دے رہے ہیں
