
فلسطین سے آنے والے راکٹ حملوں کا اب تک اسرائیل کو کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اسرائیل کو ایک فلسطینی راکٹ روکنے پر 50 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک خرچہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری طرف فلسطینی تنظیموں کو راکٹوں کی تیاری کے لئے خرچہ انتہائی کم آ رہا ہے۔ ایک راکٹ روکنے کے لئے اسرائیل کو جتنا خرچ کرنا پڑ رہا ہے ان راکٹوں کی تیاری کا خرچہ اس سے انتہائی کم ہے۔
اسرائیل کا جدید اور خودکار دفاعی نظام آئرن ڈوم ان راکٹ حملوں کو روکنے میں ناکام ثابت ہو گیا ہے۔
اسرائیل کے ایک اخبار یروشلم پوسٹ سے بات کرتے ہوئے میزائل ایکسپرٹ اوزی رابن نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو ایک راکٹ تیار کرنے میں 300 سے 800 ڈالر خرچ آ رہا ہے جبکہ اسی راکٹ حملے کو روکنے میں اسرائیل فی راکٹ 50 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
اوزی رابن نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے تیار کئے ہوئے راکٹ انتہائی سادہ اور زیادہ مہنگے نہیں ہیں لیکن ان میں ہدف کو نشانہ بنانے کی بہترین صلاحتیں موجود ہیں۔
فشر انسٹی ٹیوٹ فار سپیس ریسرچ سینٹر کے سابق چیئرمین تل انبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل ابھی تک فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے راکٹ حملوں کا توڑ تیار کرنے میں ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان راکٹ حملوں سے بچنے کے لئے اسرائیل کو کروڑوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔
تل انبار نے کہا کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کے لونگ رینج راکٹ پر ایک ہزار ڈالر سے کم لاگت آ رہی ہے۔ شارٹ رینج راکٹوں کی لاگت کے مقابلے میں لونگ رینج راکٹ زیادہ مہنگے نہیں ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی سے فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں حماس اور اسلامک جہاد نے 3100 راکٹ فائر کئے ہیں۔ ادھر اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینتز نے بتایا کہ آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم نے 1000 راکٹوں کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی ناکارہ بنایا ہے۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق تل انبار اور رابن نے کہا ہے کہ فلسطینی تنظیموں کے پاس لونگ رینج راکٹ تل ابیب اور اسرائیل کے وسطی علاقوں تک فائر کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ جہاں چاہتے ہیں اپنے راکٹ فائر کرتے ہیں۔