
تحریر : طاہرے گونیش
میرے بہت سے دوست ،معمولی احتجاج، جو اسرائیلی مظالم کے جواب میں ،فلسطینی بھائیوں بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ہوتا ہے، کو بہت ہی معمولی سمجھ لیتے ہیں۔ اتنا معمولی کہ جس کی کوئی وقعت نہیں۔ یہی احباب butterfly effect کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ علم اور ظلم کا موازنہ بھی کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بدتمیزی کی توجیہات بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔
مگر رکیے سنیے۔ فرق پڑتا ہے۔ سوشل بائیکاٹ سے بہت فرق پڑتا ہے۔ ناپسندیدگی کے اظہار سے ،مظلوم کی داد رسی سے بہت فرق پڑتا ہے۔ آپ میں سے بہت کم افراد جانتے ہیں کہ میں عبرانی زبان جانتی ہوں اور اتنی تو ضرور جانتی ہوں کہ کسی صیہونی کا انھی کی زبان میں منہ بند کر سکوں۔ سو، میرے کافی دوست کٹر یہودی ہیں۔ اکثر مجھ سے لڑتے رہے کہ تحریر کیوں لکھ دی؟ یہ سب مسلمانوں نے شروع کیا تھا ، اسرائیلی لوگ صرف اپنا دفاع کرتے ہیں۔
میں نے ان کا کوئی بھی بہانہ نہیں خریدا۔ انھوں نے بڑی شائستگی سے ہار مان لی۔ اور کہا کاش سبھی مسلمان ہمیں آپ کی طرح ڈانٹ پلا سکیں۔ مگر وہ تو نفرت کے تیر برسا رہے ہیں۔ پڑھا آپ نے؟ نفرت کے تیر! یہ تیر ان کو چبھتے ہیں۔ آپ کو وہ بڑی مہارت سے تقسیم کر دیتے ہیں۔ جو اپنے نبیوں اور رسل کے درپے تھے وہ آپ کے ہمدرد کبھی نہیں ہو سکتے۔ ان کو فرق پڑتا ہے جب احتجاج ہوتا ہے ان پر دباؤ آتا ہے۔ ان کو خوف لا حق ہوتا ہے کہ مسلمان ان کو کچل نہ دیں۔ اور ادھر آپ سوچتے ہیں جانے دیں، ہمارے کہنے سے کیا ہوگا؟ یا بائیکاٹ کرنے سے کیا ہوگا؟
بہت کچھ ہوتا ہے۔ بس آپ دیکھ نہیں پاتے، انسان عجلت پسند ہے وہ فوری نتیجہ چاہتا ہے۔
آپ میں سے بہت سے لوگ حیرت زدہ ہوں گے کہ مجھ میں صلاح الدین ایوبی کی روح آج کہاں سے آگئی۔یا نور الدین زنگی کی
مگر یہی حقیقت ہے۔
میں نے جنگ دیکھی ہے۔ میں نے دہشت گردی دیکھی ہے میں نے ظلم دیکھا ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں نے کسی اور سے تھپڑ بھی نہ کھایا ہوگا ،میں نے پتھر کھائے ہیں۔
مجھے جذبہ حب الوطنی پر اکثر طعنے ملتے ہیں۔ مگر آپ یقین کریں اپنا وطن اور آزادی بڑی نعمت ہوتی ہے۔
اور جب کسی مسئلے کا حل ہی بزور بازو ہاتھ آسکتا ہو تو آپ مت کہیں کہ امن مذاکرات ہونے چاہئیں۔
آپ میں سے اکثر نے اپنے صحن میں کوئی حقیر سا پودا بھی نہ اگایا ہوگا۔ مگر جب فلسطینیوں کے لگائے گئے زیتون اور انجیر اور کھجور کے درخت ان کے سامنے آریوں سے چیرے جاتے ہیں تو ان پر کیا گزرتی ہوگی۔ یہ آپ نہیں سمجھ سکتے۔
ہاں لیکن اس چکر میں دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی سے بھی گریز کریں۔ اکثر احباب اوریا مقبول جان اور زید حامد بن کر قسطنطنیہ اور قرطبہ کی خیالی اینٹ بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا مت۔ کریں۔ مہذب احتجاج کریں اور دلیرانہ احتجاج کرنے والوں کو روکیں مت کہ آپ کے اس عمل سے کچھ نہ ہوگا۔ کم از کم خدا کے ہاں تو سرخروئی نصیب ہوگی۔
ورنہ پھر جیسا کہ دانتے نے کہا تھا کہ جہنم کا سب سے نچلا درجہ ان لوگوں کے لئے مختص ہے جو اخلاقی بحران کے وقت کسی بھی طرف کھڑے نہ تھے، خاموش تھے۔
والسلام!

استنبول ترکی کی رہائشی ، فی الحال باکو آذربائیجان میں مقیم ہیں۔ طاہرے ہفت زبان مترجم اور ماہر زبان و بیان ہیں۔ انھوں نے عربی کی تعلیم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور ہسپانوی کی تعلیم نمل یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان سے حاصل کی۔فارسی ، اردو لسانیات و ادبیات اور اقبال سے قلبی و روحانی لگاؤ ہے۔

استنبول ترکی کی رہائشی ، فی الحال باکو آذربائیجان میں مقیم ہیں۔ طاہرے ہفت زبان مترجم اور ماہر زبان و بیان ہیں۔ انھوں نے عربی کی تعلیم بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اور ہسپانوی کی تعلیم نمل یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان سے حاصل کی۔فارسی ، اردو لسانیات و ادبیات اور اقبال سے قلبی و روحانی لگاؤ ہے۔