ترک سیکیورٹی فورسز نے فتح اللہ ٹیررسٹ آرگنائزیشن (فیتو) سے تعلق پر 30 سابق فوجی اہلکاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔ مزید 17 اہلکاروں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
انقرہ میں ترکی کے چیف پراسیکیوٹر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے فیتو سے تعلق پر ترک فوج کے 47 سابق اہلکاروں کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔ ان میں 30 اہلکار گرفتار کر لئے گئے باقی اہلکاروں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ یہ اہلکار دہشت گرد تنظیم فیتو کے سویلین افراد سے رابطے میں تھے۔ دارالحکومت انقرہ سمیت ملک کے 16 دیگر شہروں میں سابق فوجی اہلکاروں کی گرفتاری کے لئے آپریشن تیز کر دیا گیا ہے۔
ترک فوج کے ان سابق اہلکاروں کو 15 جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے جرم میں ملٹری اسکولوں سے نکال دیا گیا تھا۔ دہشت گرد تنظیم فیتو ترکی کے ملٹری اسکولز میں اپنے کارکنوں کی بھرتی کیا کرتی تھی اور ترک فوج میں ان دہشت گردوں کی بھرتی کا یہ ملٹری اسکولز بڑا ذریعہ تھے۔
حالیہ کچھ برسوں میں یہ اہلکار مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ترک فوج کے اعلیٰ عہدوں پر ترقی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جب حکومت نے انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی تو کچھ شرپسند عناصر نے فوجی بغاوت کا اعلان کیا جو ترک عوام کی سخت مزاحمت کے باعث ناکامی سے دوچار ہو گئی۔
سیکیورٹی فورسز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وسطی صوبے کیزری سے گرفتار دو دہشت گردوں نے تفتیش کے دوران اپنے کئی دیگر ساتھیوں کی نشاندہی کی جن کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔
اس وقت ترکی میں دہشت گرد تنظیم فیتو کے چھپے ہوئے کئی اہلکاروں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ واضح رہے کہ جولائی 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ میں سیاسی پناہ حاصل کئے ہوئے فتح اللہ گولن کا ہاتھ ہے۔ صدر ایردوان بارہا امریکہ سے مطالبہ کر چکے ہیں کہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے جو 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کا ماسٹر مائنڈ ہے۔
