
تحریر : علی شاہین
ممبر ترک پارلیمنٹ و اق پارٹی غازی انتیب ، ترکیہ
ترجمہ : اسلم بھٹی
غداری کی وہ شب ( 15 جولائی 2016) جب ہم پر بم گرائے جا رہے تھے ، اسے سوچ کر مجھے تین قسم کی شرمندگیاں محسوس ہوتی ہیں ۔ اول یہ کہ یہ ترکیہ میں جمہوریت پر شب خون تھا ۔ترکیہ میں جمہوریت کم و بیش 20 سالوں کا ایک طویل سفر طے کر چکی تھی اور یہ بغاوت اس جمہوریت کے لیے باعث شرمندگی تھی ۔دوسری شرم کی بات یہ کہ ہمارے اپنے طیاروں نے ہماری ہی پارلیمنٹ پر بمباری کی۔تیسری شرمندگی یہ کہ اس رات اور اس کے بعد بھی اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئن کہلانے والا یورپ اس بغاوت پر بالکل خاموش تھا۔
فوجی بغاوتوں سے میرا پہلا تعارف بچپن میں ہوا۔ 12 ستمبر (1980) کی بغاوت جب ہوئی تو اس وقت میری عمر صرف 12 سال تھی۔ اس صبح جب ہم گہری نیند سو رہے تھے تو طیاروں کی خوفناک آوازوں نے ہمیں بیدار کر دیا جو اس قدر نیچی پروازیں کر رہے تھے کہ ان کی پروازوں سے ہمارے بال اڑ رہے تھے۔ غازی انتیب کے علاقے نیزیپ ، جہاں ہم رہتے تھے اس گھر کے دروازے سے میں نے سر نکال کر گلی کی طرف دیکھا تو گشت پر مامور مسلح فوجیوں کی” اندر چلو ” کی خوفناک آوازوں نے بغاوت سے میرا پہلا تعارف کرایا۔
اس دن میرے بچپن کے ننھے سے ذہن میں اس سوال نے جنم لیا کہ وہ فوجی جنہوں نے ہماری حفاظت کرنی ہے وہ ہمیں کیوں ڈرا دھمکا رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب ابھی تک مجھے نہیں مل پایا ہے۔دنیا کی سیاسی تاریخ نے ایشیا سے افریقہ اور لاطینی امریکہ تک بہت سے فوجی شب خون دیکھے ہیں۔ لیکن یہ بغاوتیں اپنی نوعیت اور معیار کے اعتبار سے مختلف قسم کی بغاوتیں تھیں۔
پاکستان ایک ایشیائی ملک ہے جہاں میں نے اپنی گریجویشن اور ماسٹر کی تعلیم حاصل کی۔ پاکستان کی تاریخ بھی ترکیہ کی طرح تکلیف دہ اور وسیع بغاوتوں سے بھری ہوئی ہے ۔سابق وزیراعظم پاکستان مرحومہ بینظیر بھٹو نے اپنی سوانح عمری ” دختر مشرق ” میں اپنی یاداشتیں لکھتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح ان کے والد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایک صبر آزما اور طویل تحقیق کے بعد جب ضیاء الحق کو یہ سوچ کر آرمی چیف بنایا کہ” یہ شخص میرے خلاف بغاوت نہیں کرے گا اور نہ ہی غداری کرے گا”۔ تاہم اسی ضیاء الحق نے نہ صرف ان کے خلاف بغاوت کی بلکہ ان کے خلاف جلاد بن کر انہیں پھانسی کے تختے پر بھی لٹکا دیا۔
پہیہ جام آپریشن
سابق وزیراعظم پاکستان بینظیر بھٹو نے پاکستان میں ہونے والی بغاوتوں کو بھی اپنی یادداشتوں میں بیان کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سی آئی اے کی طرف سے مختلف اوقات میں مختلف کاروائیاں شروع کی گئیں جن میں ایک ” پہیہ جام آپریشن ” ہے ۔ بینظیر بھٹو کہتی ہیں کہ جب بھی پاکستان ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو ترقی کے اس پہیے کو الٹا گھما دیا جاتا ہے اور انتشار پیدا کر کے ملک کو غیر مستحکم کر دیا جاتا ہے ۔
دراصل امریکہ سی آئی اے کے ذریعے مختلف خطوں میں بغاوتوں کو ہوا دیتا ہے جس سے وہ علاقے غیر مستحکم ہو جاتے ہیں ۔ امریکہ ، لاطینی امریکہ اور کیریبین کے خطوں میں اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے ان خطوں میں سی آئی اے کے ذریعے بغاوت کرا کر خطرے میں ڈالتا ہے ۔ حالانکہ وہ ممالک جو اس کے بالکل جنوب میں واقع ہیں وہاں کی تاریخ اور لوگ اس سے زیادہ تاریخی لحاظ سے قدیم ہیں۔ اور بدقسمتی سے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ترکیہ ایک ایسا ملک ہے جس نے بہت سی بغاوتوں کا سامنا کیا ہے ۔ اس کے وزرائے اعظم اور وزراء جو بغاوتوں اور 28 فروری(1997) جیسے مابعد جدید مداخلتوں اور بغاوتوں کو جانتے تھے ، انھیں پھانسیوں کے ذریعے منظر سے غائب کر دیا گیا ۔ ہماری عوام نے بغاوتوں کے ہر طرح کے دکھ اور غم کا سامنا کیا ہے۔
اناطولیہ(ترکیہ) کے اس خطے میں بطور ایک مسلمان اور ترک کے حکومت کرنا اور رہنا آسان نہیں ہے ۔ مسلمان ترک ، جو مغربی دنیا کے لاشعور میں خدائی کوڑا بن کر جاگزیں ہو گئے ہیں، ترکوں نے چھ صدیوں تک ایشیا، یورپ اور افریقہ پر حکومت کی ہے اور وہ مغربی دنیا کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئے ہیں ۔مغرب کے مطابق ترک ایسی قوم نہیں تھے جن کو ان کی اپنے رحم و کرم پر چھوڑا جاتا۔ انہیں واپس دھکیل دینا چاہیے تھا اور یہاں ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کی طرح استحکام کے پہیے کو جام کر دینا چاہیے تھا۔
مغرب کی کھینچی ہوئی حدود کو پار کرنا
15 جولائی(2016) کی بغاوت کی کوشش ترکیہ کی تمام تیز رفتار ترقی کے پہیوں کو روکنے کا ایک آپریشن تھا جو صدر رجب طیب ایردوآن کی قیادت میں 15 سالوں میں مغرب کی طرف سے کھینچی گئی تمام حدود کو اس انداز سے پار کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ یہ جمہوریہ ترکیہ کی تاریخ اور ترکیہ کو اس کے قومی اور ملی راستے سے ہٹانے کا ایک آپریشن اور بغاوت تھی ۔
جب 15 جولائی( 2016) کو بغاوت کی کوشش کی گئی تو اس وقت میں یورپین یونین کے امور کا نائب وزیر تھا۔ جب شام کو نو بجے کے قریب انقرہ کے آسمانوں پر نیچی پرواز کرتے ہوئے جنگی جہازوں کی آوازوں اور گھن گرج سے حملہ کیا گیا جس نے ہمارے اپارٹمنٹس کی کھڑکیوں کو زلزلے کی شدت کی طرح ہلا کر رکھ دیا ۔ میں نے محسوس کیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ بغاوت کے امکانات کے بجائے بڑے پیمانے پر دشت گردی کے خلاف ایک کوشش اور کارروائی ہے۔
اس رات جب میں نے ٹویٹر پر پڑھا کہ استنبول میں باسفورس کے پل کو فوجیوں کے ایک گروپ نے ٹریفک کے لیے بند کر دیا ہے تو میں دنگ رہ گیا ۔ یہ ایک بغاوت تھی۔ میں اپنے اپارٹمنٹ سے اتر کر ڈرائیور کے ساتھ جناح سٹریٹ کی طرف گیا۔ پھر اتاترک بلیوارڈ کی طرف ہو لیا اور دیکھنے کی کوشش کی کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ اس وقت میری بیگم نے فون کیا اور کہا کہ چنکایا مینشن کے قریب ایک بڑا دھماکہ ہوا ہے( جس کا ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ یہ ایک محض زوردار آواز کی بازگشت تھی). اس آواز سے ہمارا اپارٹمنٹ لرز گیا۔ اس لیے مجھے دوبارہ گھر لوٹنا پڑا۔
مجھے وضو کرنے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب ہمارے صدر رجب طیب ایردوآن نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ ہمیں بغاوت کی کوشش کا سامنا ہے اور اپنی جمہوریت اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے لوگوں کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دی۔ یہ پشین گوئی کرنا بہت مشکل تھا کہ ایک شام جو بہت بری طرح سے شروع ہوتی ہے کہ کس طریقے کی رات میں بدلے گی اور کس قسم کی صبح میں نمو ہو گی اور کیا ہم ایک نئے دن کے لیے جاگیں گے یا نہیں ؟ ۔
جب میں نے اپنی بیوی اور بیٹے کو بتایا کہ میں باہر جا رہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی آپ کے ساتھ آئیں گے .کچھ بھی ہو جائے ہم آپ کے ساتھ رہیں گے۔
ہم گاڑی میں سوار ہوئے اور اتاترک بلیوارڈ سے نیچے قزلائے کی طرف جانے لگے۔ ہم نے قزلائے کی سمت سے ٹینکوں کو اتا ترک بلیوارڈ کی طرف چڑھتے ہوئے دیکھا۔
عین اسی لمحے میرے عزیز دوست مصطفیٰ شاہین (ممبر پارلیمنٹ ، ملاتیا، ترکیہ) نے مجھے کال کی۔ انہوں نے پوچھا کہ میں کہاں ہوں اور ہمیں پارلیمنٹ میں بلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پارلیمنٹ کو فوری طور پر کھولنا اور کارروائی چلانا ہے اور عوام کو مزاحمت کا پیغام دینا ہے۔
میں نے اپنے ڈرائیور احمد سے کہا، "چنکایا گیٹ سے پارلیمنٹ میں داخل ہو جاؤ ۔” جب ہم چانکایا گیٹ کی طرف بڑھے تو ہم نے دور سے دیکھا کہ دو بسیں ایک طرف کھڑی ہیں اور پارلیمنٹ کے چانکایا گیٹ کو بلاک کر رہی ہیں۔ یہ صورت حال دیکھی تو میں نے کہا کہ آئیے سیکیورٹی سٹریٹ گیٹ کی طرف چلتے ہیں۔ جب ہم قزلائے کی سمت سے اتاترک بلیوارڈ کی طرف مڑے اور اس گلی کے قریب پہنچے جہاں امریکی سفارت خانہ واقع ہے تو دیکھا کہ دو عام لباس میں ملبوس افراد جن کے بارے میں ، میں ابھی تک نہیں جانتا کہ وہ کون تھے، ہاتھوں میں خودکار رائفلیں لیے کھڑے تھے۔ انہوں نے داخلی راستہ روک دیا۔ انہوں نے ہمیں چیخے چلاتے اور اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ سب سے عجیب بات یہ تھی کہ اس وقت امریکی سفارت خانے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس کی تمام لائٹس بند تھیں اور اس گلی میں دو ٹینک کھڑے کیے گئے تھے جن کی پشت امریکی سفارت خانے کی طرف تھی اور ان کے بیرل نیچے پارلیمنٹ کی طرف تھے تاکہ امریکی سفارت خانے کی حفاظت کی جا سکے۔ اس لمحے میں نے محسوس کیا کہ کچھ غیر معمولی واقعہ رونما ہو رہا ہے۔
ہم دوبارہ چنکایا گیٹ کی طرف بڑھے۔ اگرچہ ہم گاڑی سے پارلیمنٹ میں داخل نہ ہو سکے لیکن ہمارا مقصد پیدل پارلیمنٹ میں داخل ہونا تھا۔ جیسے ہی ہم چنکایا گیٹ کے قریب پہنچے، ہم نے محسوس کیا کہ بسوں کے درمیان گاڑی کے گزرنے کے لیے کافی فاصلہ ہے۔ ہم نے خودکار رائفلوں اور بلٹ پروف جیکٹ والے افسران کو بتایا کہ ہم نائب وزیر ہیں اور یہ کہہ کر اندر چلے گئے۔
پارلیمنٹ کو اجلاس نہ ہونے اور جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔ ہم دیگر پارلیمنٹ میں آنے والے اپنے ساتھیوں کے ساتھ دروازے توڑ کر اسمبلی میں داخل ہونا چاہتے تھے اور وہاں سے براہ راست نشریات شروع کر کے اپنی قوم کو بغاوت کے خلاف مزاحمت کا پیغام دینا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے دروازے توڑنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ اور ارکان پارلیمنٹ کی حفاظت پر مامور پولیس افسران کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا۔ اس رات یہ واضح نہیں تھا کہ کون کیا ہے اور وہاں افراتفری کا ماحول تھا۔
یہ بحث اور شور شرابہ جاری تھا کہ پارلیمنٹ کے سپیکر اسماعیل کہرامان بھی آ پہنچے۔ انہوں نے پولیس سے اسمبلی کے دروازوں کی چابیاں مانگیں اور جب دروازے کھلے تو ہم اسمبلی ہال میں داخل ہوئے۔ وہاں اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ اور شاید یہ پہلے سے زیادہ یک جہتی کا وقت تھا ۔ پارلیمنٹ کا ٹیلی ویژن آن ایئر نہیں تھا۔ ہم نے A Haber ٹیلی ویژن چینل کو اسمبلی میں مدعو کیا اور براہ راست نشریات پارلیمنٹ سے شروع کی گئیں۔
پارلیمنٹ پر بمباری
میرے خیال میں یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس کی بغاوت کے غداروں کو توقع نہیں تھی۔ پارلیمنٹ کے اسپیکر اسماعیل کہرامان اور وزیر انصاف بکر بوزداع نے ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی سے بغاوت کے سازشی عناصر کے خلاف مزاحمت کا مطالبہ کیا۔ یہ دیکھ کر بغاوت کرنے والوں نے ترک گرینڈ نیشنل اسمبلی میں مزاحمت کو روکنے کے لیے طیاروں سے اسمبلی پر بمباری شروع کر دی۔
یہ ایک بہت ہی دلچسپ اور تکلیف دہ احساس تھا۔ ہم پر ہمارے اپنے طیاروں سے ہی بمباری کی جا رہی تھی جو ہماری، ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی اور ہماری قوم کی حفاظت پر مامور تھے وہی بمباری کر رہے تھے۔ جب پہلا بم گرا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ غدار کتنے غصے میں ہیں۔ میں نے اپنی بیوی اور بیٹے سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو میرے ڈرائیور احمد کے ساتھ گھر واپس جا سکتے ہیں۔ ” نہیں، آج رات جو کچھ ہو گا وہ ہم سب کے ساتھ ہو گا ” ، انہوں نے کہا، ” ہم یہیں ہیں اور وہ صبح تک ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں موجود رہیں گے۔” جب ہم نے فجر کے وقت ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں تباہی دیکھی تو میری اہلیہ اپنے آنسو روک نہ سکیں اور رو پڑیں۔
جمہوریہ ترکیہ میں بغاوت کی تاریخ میں پہلی بار ہمارے عوام نے اپنی انوکھی اور بے مثال مزاحمت سے بغاوت کو روکا ، اسے شکست دی اور کچل دیا۔
15 جولائی کی غدار بغاوت کی کوشش کے تقریباً دو ماہ بعد، ہم نے یورپی پارلیمنٹ کے خارجہ امور اور انسانی حقوق کے کمیشن کے ساتھ برسلز میں ” سماعت ترکیہ ، قانون کی حکمرانی” اور "قانون اور ترکیہ کی حکمرانی” کے عنوان سے ایک مشترکہ میٹنگ کی۔
سارے غدار اکٹھے تھے
میں نے اپنی وزارت اور اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے اجلاس میں شرکت کی۔ جب میں اسپیکر کے طور پر ہال میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ یورپ کے تمام فیتو اور پی کے کے کے غدار ہال میں اکٹھے ہیں۔ یہاں تک کہ ترکیہ مخالف نامہ نگار کٹی پیری بھی ہال میں موجود ہیں۔
ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے بغاوت کے عمل کا ذاتی طور پر تجربہ کیا، میں نے تفصیل سے بتایا کہ کیا ہوا۔ میں نے بین الاقوامی قانون اور ترکیہ کے قانون کے فریم ورک کے اندر بغاوت کے دوران اور بعد میں اٹھائے گئے قانونی اقدامات کی وضاحت کی۔
تاہم ترک جمہوریت اور قوم کی مرضی کے خلاف اس جان لیوا غدارانہ بغاوت کی کوشش کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابی کو مبارکباد دینے اور یہ پوچھنے کے بجائے کہ ہم مستقبل میں اسی طرح کی بغاوت کی کوشش کے خلاف کس قسم کے اقدامات کریں گے ، الٹا انہوں نے سوال کیا کہ ان غداروں کو کیوں گرفتار کیا گیاہے جو اس بغاوت سے وابستہ تھے یا سہولت کار تھے ۔
اس سوال سے خود کو مخاطب کرتے ہوئے؛جب میں انتظار کر رہا تھا کہ آپ ترکیہ کی جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور آزادیوں کے خلاف بغاوت کی اس غدارانہ کوشش کو روکنے پر ہمیں مبارکباد دیں گے، میں نے کہا کہ میں آپ کے الزامات کا سامنا کر کے حیران ہوں۔میں آپ سے جمہوریت کا دفاع کرتے ہوئے بغاوت کے سازشیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہمارے 252 شہریوں کے حقوق اور زخمی ہونے والے 2 ہزار سے زائد لوگوں کے حقوق کے بارے میں پوچھنے کی توقع کروں گا۔
آج یہاں آپ کے رویوں کو دیکھ کر، میں سمجھتا ہوں کہ؛جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کو روک کر ہم نے کچھ برا کیا ہے اور اچھا نہیں کیا۔مجھے اس غدار رات کے بارے میں تین طرح کی شرمندگیاں محسوس ہوتی ہیں جب ہم پر بم گرے۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ ترک جمہوریت جو کم و بیش 20 برس کا ایک طویل سفر طے کر چکی تھی اس پر ایسی بغاوت شرمناک تھی۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے اپنے طیاروں نے ہماری ہی پارلیمنٹ پر بمباری کی۔
تیسری شرمندگی ہے وہ رات اور اس کے بعد کی راتیں تمہاری خاموشی ۔ میں نے کہا کہ آپ نے اپنے ٹیلی ویژن پر ترکیہ کی جمہوریت اور قوم کی مرضی کے خلاف بغاوت کو، جو یورپ کے جمہوری دارالحکومتوں میں سے ایک ہے، خوشی سے دیکھا، گویا آپ کوئی ایکشن فلم دیکھ رہے ہیں۔
جب میں نے یہ تاثرات بیان کیے تو ہال میں ایک کہرام مچ گیا۔اس دن اس اجلاس میں مجھے احساس ہوا کہ مغرب کے لیے جمہوریت اور انسانی حقوق وہ بت ہیں جنہیں وہ بھوکے کھاتے ہیں۔جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی صرف مغربی مفادات کے لیے ہی محض درست تصورات تھے۔