
زنجیریہ (عیسٰی بیگ) مدرسہ:
اس مدرسہ کو آق قویونلو سلطنت کے آخری سلطان ملک نجم الدین عیسی بن مظفر دواد بن الملک الصالح نے 1385ء میں تعمیر کروایا تھا۔ہندوستانی مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کے جد امجد امیر تیمور گورگانی (1336-1405ء) سے شکست کے بعد یہ مدرسہ آق قویونلوسلطان کے لیے جیل میں تبدیل ہو گیا۔ مشرقی و مغربی سمت میں بنے تکونی دروازے دور سے ہی نظر آرہے تھے۔ دومنزلہ اس عمارت میں کئی مزارات، مسجد اور کمرے موجود ہیں۔ مجھے جو اس عمارت میں سب سے بھلی بات لگی وہ دونوں اطراف میں کمرے جو کلاس روم تھے ۔طلبہ کی رہائش کا انتظام دوسری منزل پر تھا۔ جہاں کئی کمرے اب بھی موجود تھے۔ جو کہ نسبتاً چھوٹے اور تنگ تھے۔ نیچے کلاس روم کے اطراف اور صحن میں لگے خوبصورت پھول دیکھنے والوں کو بہت اچھا منظر پیش کر رہے تھے۔ مینار پتھروں سے بنائے گئے تھے جن پر خوبصورت انداز سے بیل بوٹ وغیرہ بنائے گئے تھے۔ لیکن ماردین کے نامساعد سیاسی حالات اورشدید گرمی کہ جس میں پتھر سلامت نہیں رہے تو ان پر بنائے گئے نقوش کیونکر سلامت رہتے۔
اِن پتھروں میں کوئی تو منظر تلاش کر
جو دل سَمو سکے وہ سمندر تلاش کر
رکھتا ہو خود بھی حوصلہءخود سپردگی
شیشوں کے درمیاں وہ پتھر تلاش کر
ماردین میں ہماری آخری دیکھنے والی جگہ ماردین کا پرانا قلعہ تھا۔ قرتال یواسی (شاہین کا گھر) نام سے شہرت رکھنے والا 1600 سال پرانا قلعہ بھی یہاں کی دوسری عمارتوں کی طرح کھنڈرات کی شکل میں موجود تھا۔ لیکن اس کی اونچائی ، شکستہ دیواروں اور تعمیر کردہ جگہ کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانے میں قطعاً مشکل پیش نہ آئی کہ کبھی یہاں بھی انسانوں کی بڑی آبادی کا بسیرا رہا ہو گا۔ اس تک پہنچے کے لیے ہم زنجیرہ مدرسہ سے ہی داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر رکے اور اس کو تعمیر کرنے والےآتش پرست فارسی حکمران شاہ بخاری کی تعمیر کی سوچ کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
سورج کے سایے بڑی تیزی سے بڑھ رہے تھے اور ہمیں شام ہونے سے قبل دیار بکر پہنچانا تھا۔ کیونکہ وہاں کے حالات خراب تھے اور شام 9 بجے کے بعد کرفیو نافذ ہو جاتا تھا۔ اس لیے ہمیں مقررہ وقت سے پہلے وہاں پر پہنچانا تھا۔ چنانچہ گاڑی میں بیٹھے اور دیار بکر کی طرف چل دیے۔ مغرب کی نماز راستے میں ہی ادا کی۔ اس سفر میں خاص بات یہ تھی کہ جس گاڑی میں ہم تھے اس کے منتظمین نے یہ فیصلہ کیا کہ گاڑی میں سوار ہر شخص گاڑی میں لگے سپیکر پر آکر کچھ نہ کچھ سنائے گا۔ کسی نے گانا سنایا تو کسی نے نعت، کسی نے تلاوت کی تو کسی نے کوئی غزل سنائی۔ جب میری باری آئی تو میں نے ایک ترک شاعر امید یشر اوزجان (1926-1940ء ) کی ایک غزل کے چند اشعار حاضرین کو سنائے۔ وہ اشعار آپ بھی پڑھیں
خوبصورتی
ہر روز تمہارے ساتھ بار بار جینا
آنے والے کل کو بھول کر
تمام وقتوں کو ایک جگہ پر روکنا
سارے قوانین کو پھاڑ کر دھجیاں اڑانا
پھر اس جگہ پر آنا
موسموں کورکنے کا کہنا
برف برستے ہوئے وقت پھولوں کا کھلنا
کسی شام سورج کا نہ ڈوبنا
پھر چاندی سے پیالوں کا بھرنا
غیر معمولی پینا
اور پھر ہر چیز کا آن بھر میں بھول جان
اکٹھے گزارنا، آنے والے تمام زمانوں کابڑھنا
خوبصورتی
تمہیں دیوتا کی طرح محبت کرنا
تمہارے ساتھ دیوتا بن جانا
یہ اشعار پڑھے تو بالخصوص ترک دوستوں نے اس کو بہت پسند کیا۔ اگرچہ سپیکر کی آواز بہت آہستہ جبکہ گاڑی چلنے کی آواز بہت تیز تھی اس لیے شاید پیچھے بیٹھے ہوئے دوست مکمل طور پر سن نہیں سکے۔ باقی کے راستے میں کچھ دیر تو یوں گزری۔ جبکہ باقی کا سارا وقت نزدیک بیٹھے ہوئے دوستوں سے مختلف امور پر بات ہوئی۔ زیادہ دوستوں نے پاکستان، ہندوستان کے تعلقات بالخصوص کشمیر کے متعلق بہت زیادہ سوال کیے۔ یہاں یہ بات بھی مجھے بہت زیادہ محسوس ہوئی کہ ہندوستان نے اپنے میوزک، فلموں، ڈراموں کے زریعے اپنے کلچر کی خوب اور بہت بہتر انداز میں تشہیر کی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان تجارت، سیاحت، علم و ٹیکنالوجی کی طرح اس شعبہ میں بھی ہندوستان سے بہت زیادہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یہاں پر پاکستان کے مغربی سمت میں واقع ایک مسلمان ملک سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کے خیالات سن کر مجھے ایک جانب تو دکھ ہوا ساتھ ہی اس بات کا بھی احساس ہوا کہ میڈیا نے ان لوگوں کا کیسے برین واش کیا ہے۔ اگرچہ میں نے اپنے تئیں ان دوستوں کے سوالوں کے جواب دینے کی بھی کوشش کی لیکن میڈیا جس نے اتنے دنوں کی ذہن سازی کی تھی اس مختصر سے وقت میں اس کو کیسے ختم کر سکتا تھا؟ البتہ یہ لوگ میرے دوست بن گئے اور آج بھی ہیں۔
عبدالرحمن پیشاوری:
ان کی باتیں سن کر میں نے دکھ بھرے لہجے میں اپنی گود میں رکھی ہوئی کتاب کو کھولا اور اس کی اوراق گردانی شروع کر دی۔ ۔ اس کو کتاب سے زیادہ ایک ڈائری یا کسی شخص کی یاداشتیں کہا جا ئے تو زیادہ بہتر ہے۔ یہ پشاور سے تعلق رکھنے والے عبدالرحمن کی خود نوشت ڈائری تھی۔ متحدہ ہندوستان کا یہ پشاوری سپوت علی گڑھ سے ہوتا ہوا اناطولیہ ہلال احمر کے وفد کے ہمراہ آیا اور ترکی کی جنگ آزادی (1919ء) میں بھر پور حصہ لیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ (1923ء) کے خاتمہ کے بعد واپس ہندوستان جانے کی بجائے ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک (1881-1938ء)کی قیادت میں قائم ہونے والے جمہوری حکومت کے انتہائی متحرک رکن بن کر کام کیا۔
غازی عبدالرحمن شھید پشاوری کی زندگی کے متعلق جو نسخہ میرے پاس تھا اس کے مصنف پروفیسر ابوسلمان شاہجاہنپوری ہیں جبکہ اس کو عبدالرحمن شھید کے بھائی محمد یوسف پشاوری نے ترتیب دیا تھا۔ میرےپاس اس کا ایجوکشیشنل پریس کراچی کا شائع کیا ہوا نسخہ تھا۔
6ستمبر 1886ء پشاور میں پیدا ہونے والے عبدالرحمن نے ساتویں جماعت تک پشاور سے ہی تعلیم حاصل کی جب کہ 1906ء میں آٹھویں جماعت کے لیے علی گڑھ آگئے۔ علی گڑھ کے علمی ماحول میں عبدالرحمن نے نپولین کے حالاتِ زندگی کا بارہا مطالعہ کیا۔ چونکہ علی گڑھ یونیورسٹی کا بنیادی مقصد انگریز سرکار سے وفاداری اور انگریزوں کو اپنی محبت کا یقین دلانا تھا اسی واسطہ عبدالرحمن کو انگریزی حکومت کے خلاف ایک مضمون لکھنے کی وجہ سے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ البتہ 3 سال بعد 1911ء میں انہیں دوبارہ داخلہ مل گیا۔
ابھی مکمل طور پر علی گڑھ میں دوبارہ داخل بھی نہ ہوئے تھے کہ جنگ طرابلس و بلقان شروع ہوگئیں۔ ہندوستان کے مسلمان جنہیں ترکوں سے ایک جذباتی لگائو ہے نے جب ان واقعات کو سنا تو پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی۔ بالخصوص جب 1911ء میں اٹلی کے حملے کی خبریں ہندوستان پہنچی تو علی گڑھ کے طلباء کا غم و غصہ مزید تیز ہوگیا۔ اگلے ہی سال ترکی اور بلقانی ریاستوں کی جنگیں شروع ہوگئیں۔ ہندوستان میں ترکی کی مالی امداد کے حوالہ سے مختلف صورتوں پر غور کیا جانے لگا۔ ان میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ ترک زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک طبی وفد روانہ کیا جائے۔ نتیجتاً 5 ڈاکٹر اور 19مرہم پٹی کرنے والے افراد کا یہ 24 رکنی قافلہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی سربراہی میں اناطولیہ روانہ ہوا۔ سفر کے اخراجات ایک ہزار روپییہ فی کس لگایا گیا ۔ عبدالرحمن نے اپنی کتابیں ، کپڑے ودیگر سامان فروخت کرکے زادہ راہ کی رقم فراہم کی۔
ہندوستانیوں کا یہ طبی وفد دسمبر 1912ء میں ترکی پہنچ گیا۔ سوامہینے استنبول میں قیام کرنے کے بعد 8 فروری 1913ء کو میدانِ جنگ کی طرف روانہ ہوا۔ 16 جنوری کو ترکی کے حکومتی عہدیدار عمر پاشا نے ایک دعوت دی۔ پرتکفل اور انگریزی کھانوں کوکھانے کے بعد میزبان نے ایک مفصل تقریر کی جس میں انہوں نے مختلف ممالک کے درمیان رشتہ اخوت و محبت قائم کرنے کے ذرائع پر بحث کی۔ جب یہ طبی مشن استنبول وغیرہ میں اپنی ذمہ داریاں پوریاں کررہا تھا عین اسی لمحہ ادرانہ کا محاصرہ بلغاریہ نے کر لیا جس کو روس کی پشت پناہی حاصل تھی۔ عبدالرحمن جو اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں نے اس واقعہ کے متعلق ایک خط اپنی بہن کو لکھا جس میں وہ کہتے ہیں ” ہاں عزیزہ! ایڈریانوپل (ادرنہ) ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اللہ پناہ دے۔ جس دن یہ منحوس خبر سنی، یہاں کیا حال تھا، بیان سے باہر ہے۔ لیکن نوشتہ تقدیر کا کون مقابلہ کرسکتا ہے۔ جانے والی چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ تاریخ میں ایک نام رہ گیا کہ غازی شکری پاشا نے کس طرح دشمن کا مقابلہ کیا۔ جانتی ہو کہ جس وقت دشمن کی فوج ان جاں نثاروں کو بے تحاشا قتل کر رہی تھی ترک سپاہی شدتِ پیاس اور بھوک سے اپنی توپوں کے دھانوں پر اپنا منہ رکھ کر آخری سانس لے رہے تھے۔ اللہ اکبر، رحمت ہو ایسے جانبازوں کی مائوں پر، کاش سب ترک ایسا ہی جذبہ پیدا کرتے۔ آہ افسوس صد افسوس! کہ چند بدبخت ترکوں کی غفلت اور بے اتفاقی اور ملت فروشی کے باعث یہ جانباز لوگ مفت میں مارے گئے۔ (عبدالرحمن پیشاوری شھید، ص 139-140)
دورانِ جنگ عبدالرحمن نے ہر موقع پر اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر میدان جنگ میں نکل جاتے اور توپ کے گولوں کی ھلاکت تیزی اور گولیوں کی بارش میں زخمیوں کو تلاش کرتے پھرتے ۔ جہاں انہیں کوئی ترک زخمی نظرآتا اسے اٹھا لاتے اور ہسپتال تک پہنچاتے اور اس کی مرہم پٹی کرتے تھے۔ ترک سپاہی اور افسر بھی ان کے جذبہ ایثار اور بہادری کو دیکھ کر انہیں شاباش اور آفرین پکار اٹھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ زخمی ہونے والے ہر ترک سپاہی ہندوستانی ہسپتال میں جانے کو ترجیح دیتا تھا۔ ترکی میں ہرایک کی زبان پر تھا ” آفندم ہندی خستہ خانہ چوق ای” (یعنی ہندوستانی ہسپتال بہت اچھا ہے)
1913ء کے آخر میں سلطان محمد خامس خلفیہ ترک نے وفد سے ملاقات کرکے شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر انصاری کی معیت میں یہ مشن واپس ہندوستان لوٹ گیا۔ البتہ عبدالرحمن پشاوری ترکی میں ہی رک گئے۔ جہاں انہوں نے پہلے عراق اور افغانستان میں بھی ترکی کے سفیر اور نمائندہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو باحسن انداز میں سرانجام دیا۔ ایک شب استنبول میں تین اوباشوں کے گروہ نے 20 اور 21 مئی 1925ء کی درمیانی شب میں گولیاں ماردیں۔ کچھ دن پسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد عبدالرحمن 30 جون 1925 بمطابق 8 ذی الحجہ 1343 بروز منگل ظہر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
حیف ! در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روۓ گل سیر نه دیدم که بهار آخر شد
(یعنی افسوس پلک چھپکنے میں دوست کی مجلس ختم ہوگئی ۔ پھول کے چہرے کو پورا نہ دیکھا اور بہار ختم ہوگئی۔)
جب ہم دیارِ بکر میں داخل ہو رہے تھے تبھی میں بھی اس کتاب کے آخری اوراق کو پڑھ رہا تھا۔ کھڑی سے باہر دیکھا جہاں پر اب مکمل طور پر اندھیرا چھایا چکا تھا۔ اس گھوپ اندھیرے میں میں سفید کپڑے پہنے ایک نورانی شخصیت کہی رہی تھی۔ ” مُبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کِیُونکہ وہ تسلّی پائیں گے۔ ۔ مُبارک ہیں وہ جو رحمدِل ہیں کِیُونکہ اُن پر رحم کِیا جائے گا۔ ”