turky-urdu-logo

ماردین

شانلی عرفہ شہر میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد گاڑی پھر سے کشادہ سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ ترکی میں ایک شہر سے دوسرے شہر جانے والے سڑکیں کشادہ، بہترین اور رہائشی آبادیوں سے ہٹ کر بنی ہوئی ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ ماردین شہر میں تقریبا رات 9 بجے کے لگ بھگ ہوٹل جس میں ہمارے قیام کا انتظام کیا گیا تھا پہنچ جائیں گے۔ اسی وجہ سے راستے میں سونے کی بجائے قریبی سیٹوں پر برجمان ترک احباب سے جان پہچان بنائی۔ آج جب میں چار سال بعد پھیچے مڑکر دیکھتا ہوں تو حیرانگی ہوتی ہے کہ آج بھی میرے دائیں بائیں دوستوں میں وہی لوگ موجود ہیں جن سے اس سفر کے دوران دوستی ہوئی تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر حیرت مجھے اس بات کی ہے کہ ان لوگوں سے قربت بھی اتنی ہی ہے جتنی جس سے اس سفر کے دوران ہوئی تھی۔ مثال کے طور پر اس سفر میں میری جان پہچان  میرے سب سے قریبی دوست ہندوستان کے علاقہ بہار سے تعلق رکھنے والے عتیق الرحمان سے ہوئی تھی۔ آج بھی انہی سے ہی میری دوستی سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ترک دوستوں میں عبداللہ برگر ، یاسمین گوک ترک دوستوں سے ملاقات اور دوستی ہوئی تھی آج بھی یہ لوگ مجھے اسی خلوص اور محبت سے ملتے ہیں۔ ہم لوگ جب بھی ملتے ہیں تو اس سفر کی یادوں کو ضرور تازہ کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے یہ سفر ہمارے لیے انتہائی یادگار تھا۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ سفر میں کی گئی دوستی ہو ۔

 

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

 

جب ہم ہوٹل پہنچے تو رات کے تقریباً ساڑھے نو بج رہے تھے۔ چونکہ یہاں ہوٹلز میں جو کھانا ہوٹل کی طرف سے دیا جاتا ہے اس کا مخصوص وقت ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں بتایا گیا کہ جلد از جلد ہوٹل کے کھانے کے ہال میں پہنچ جائیں۔ ہم لوگ کمروں میں پہنچے، سامان رکھا اور ہاتھ منہ دھونے کے بعد کھانے پر بھوکے شیروں کی ماند ٹوٹ پڑے۔ مشہور ہندوستانی شاعر ، صوفی و مورخ حضرت امیر خسرو (1253-1325ء) نے بالکل صحیح کہا ہے کہ انسان ہر بھوک برداشت کر سکتا ہے سوائے پیٹ کی بھوک کے۔ چنانچہ ہم بھی پیٹ کی بھوک مٹانے کے بعد دن کی تکاوٹ اور دوسرے دن کے لیے سفر کی سوچ کی وجہ سے جلد ہی سو گئے۔ اگلے دن دوستوں سے ملاقات ناشتہ کی میز پر ہوئی۔ ناشتہ کے بعد ہم ماردین کی سیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

 

 ماردین شہر کا ایک مختصر تعارف:

ماردین آبادی کے لحاظ سے ترکی کا 26 واں بڑا شہر ہے۔ 2016ء میں ہوئی مردم شماری کے مطابق یہاں کے باشندوں کی تعداد 237.796 ہے۔ دریائے دجلہ کے کنارے پر واقع یہ شہر ترکی اور شام کی بالکل سرحد پر واقع ہے۔  مقامی آبادی تقریباً 90 فی صد کرد جبکہ 10 فی صد سریانی عرب ہیں۔ جنوبی اناطولیہ کا یہ علاقہ دریائے دجلہ کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ جس کے جنوب میں شام، مغرب میں شانلی عرفہ، شمال میں دیار بکر اور باتمان، شمال مشرق میں سرت اور مشرق میں شرناق کا شہر واقع ہے۔ ان سرحدی شہروں میں ترک تعداد میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں پر موجود کلیساوں، مزارات،خانقاہوں اور مساجد کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہ تھا کہ کسی دورمیں یہ شہر یقیناً مختلف ادیان کے ماننے والوں کا میزبان رہا ہوگا۔ یہ شہر شاہرہ ریشم (عہد قدیم کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور پر شاہراہ ریشم  کہا جاتا ہے۔ جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملاتے ہیں۔ یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا بنیادی کردار رہا ہے۔  شاہراہ ریشم کا جنوبی حصہ شمالی ہند سے ہوتا ہوا ترکستان اور خراسان سے ہوتا ہوا بین النہرین اور اناطولیہ(آج کا ترکی) پہنچتا ہے۔ یہ راستہ جنوبی چین سے ہندوستان میں داخل ہوتا ہے اور دریائے برہم پترا اور گنگا کے میدانوں سے ہوتا ہوا بنارس کے مقام پر جی ٹی روڈ میں شامل ہو جاتا ہے۔ بعد ازاں یہ شمالی پاکستان اور کوہ ہندو کش کو عبور کر کے مرو کے قریب شمالی راستے میں شامل ہو جاتا ہے۔)  پر ہونے کی وجہ سے اہم تجارتی شہر بھی تھا۔بالخصوص اس شہر کا کپڑا کہ جس کو اس زمانہ میں مرعز کہاجاتا تھا بہت مشہور تھا۔ مارکوپول اور ابن بطوطہ نے اپنے سفرناموں میں اس شہر کے کپڑے کے عمدہ ہونے کو خصوصیت کے ساتھ ذکرکیا ہے۔

یہ شہر اور اس کی تہذیب ہمارے ہاں کی ہڑپہ تہذیب کی  ہم عصر ہوسکتی ہے کیونکہ یہ شہر بھی میسوپٹامیہ تہذیب کا ایک اہم اور تجارتی شہر تھا۔مسلمانوں سے پہلے یہ علاقہ کبھی فارسیوں اور کبھی بازنطینیوں کی سلطنت کا حصہ تھا۔ یہاں پر مسلمان پہلی مرتبہ صحابی رسول حضرت عیاض بن غنم رضی اللہ تعالیٰ عنہ (582-641ء) کی سربراہی میں جنگ یرموک (635ء) میں شکست کے بعد بھاگنے والے رومی سپاہیوں کا تعاقب کرنے والی مسلم فوج کے کماندار اپنے چچا زاد بھائی اور حضرت خالد بن ولید کی جگہ مسلم فوج کی کمان سنبھالنے والے ابو عبیدہ بن الجراح کے حکم سے ان بازنطینیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ان علاقوں میں آئے۔ یوں یہاں پر پہلی مرتبہ  آتش پرست کردوں اور مسلمان عربوں کا آمنا سامنا ہوا۔ (640ء) اس کے بعد یہ علاقہ اموی، عباسی، ایوبی، سلجوق ، صفیوں اور عثمانیوں کے زیر انتظام رہا۔ البتہ اس کا اندرونی سطح کا  انتظام مقامی زمینداروں اور حاکموں کے ہی سپرد رہا۔ دنیا میں بعض علاقے ایسے ہوتے ہیں جن پر باہر سے آنے والے حملہ آوروں کے لیے فتح کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن ان پر اپنی حکومت قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جیسے مصر، افغانستان، ہندوستان میں راجپوتوں کے علاقے وغیرہ۔ کردوں کے علاقے بھی ایسے ہیں جن پر قبضہ کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن اس قبضہ کو قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ ان علاقوں کے لوگ باہر سے آنے والوں کے زیادہ دیر تک غلام نہیں رہتے۔ اور ساتھ ہی ساتھ فاتحین کو ایک کے بعد ایک بغاوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔

 

قاسمیہ مدرسہ

ناشتہ سے فراغت کے بعد ہماری پہلی منزل شہر کے درمیان میں  قاسمیہ مدرسہ تھا۔ یہ مدرسہ نامساعد علاقائی، سیاسی حالات اور لڑائیوں کے باعث کم و بیش دو سو سال میں تعمیر کیا گیا تھا۔  12ویں صدی میں آغاز کیے گئے اس مدرسہ کی تکمیل 15ویں صدی میں آق قویونلو سلطنت (  آق قویونلو ترکمان نسل کا ایک قبیلہ تھا جس نے 1378ء سے 1508ء تک موجودہ مشرقی اناطولیہ، آرمینیا، آذربائیجان، شمالی عراق اور مغربی ایران پر حکومت کی۔) کے ایک حاکم قاسم بن جہانگیر نے مکمل کروائی تھی اسی لیے مدرسہ کا نام بھی اسی بادشاہ کے نام پر قاسمیہ رکھ دیا گیا۔  اینیٹوں اور پتھر سے بنائے گئے مینار بہت خوبصورت اور نمایا ں ہیں۔ میرا پسِ منظر بھی مدرسہ سی ہی تعلیم حاصل کرنا ہے  اسی وجہ سے اس مدرسہ میں جاکر اپنائیت سی محسوس ہوئی۔ اس کے دروازوں پر لکھی ہوئی تحریروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ طبی علوم کی بھی باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اب یہ مدرسہ کم اور میوزیم زیادہ لگتا ہے۔ بالخصوص مدرسہ کی اندورنی جانب جہاں پرانی جالی لگی ہوئی تھی اور جہاں شاید کبھی کلاسیں ہوتی ہوں گی میں کھڑے ہو کر باہر والی جانب سے لوگ کھڑے تصاویر بنا رہے تھے۔ مجھے قرآن پڑھنے والی آہستہ آہستہ آوازیں محسوس ہو رہی تھیں جو زمانہ کے مظالم کے نیچے دب کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔ میں نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ دعا کی اور اردگر بنی ہوئی چند مدرسین کی قبروں کو دیکھا اور آگے چل دیے۔

تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں

تُو جدا ایسے موسموں میں ہوا

جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے

 

دیر زعفران

باہر اب گرمی خاصی شدید ہو چکی تھی۔ اسی لیے سبھی قافلہ کے شرکاء جلد از جلد گاڑی میں بیٹھ گئے اور اب ہماری اگلی منزل ماردین میں موجود 5ویں صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی”دیر زعفران” نامی خانقاہ تھی۔ یہ خانقاہ بنیادی طور پر سریانی راہبوں کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ 1932ء تک آرتھوڈوکس مسیح راہبوں کا مسکن رہنی والی اس خانقاہ میں آج بھی 52 راہبوں کے مزارات ہیں۔ جب ہمارا قافلہ وہاں پہنچا تو دھوپ خاصی بڑھ چکی تھی۔ ہماری گروپ میں شامل مسیح لڑکیوں نے مدفون راہبوں کے مزارات پر داخل ہونے سے قبل سروں کو دپڑوں سے ڈھانپ لیا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ لڑکیاں جو پورا لباس پہننے کی بھی زحمت نہیں کرتیں جیسے ہی کسی مقدس عمارت میں داخل ہوئیں انہوں نے بھی دوپٹوں سے اپنے سروں کو ڈھانپ لیا ہے۔ عہد قدیم اور زمانہ وسطیٰ میں تمام مذاہب میں عورتوں کے سروں کو ڈھانپنے کا رواج عام تھا۔ جیسے عیسائیت میں نن،آریہ دھرم (ہندومت) میں گھونگٹ، اسلام اور یہودیت میں بھی یہی حال تھا۔ آج کی عورت چاہے جتنی بھی ماڈرن ہو جائے وہ بھی دل میں یہی خیال کرتی ہے کہ پردہ کرنا ایک مہذبیت اور پاکیزگی کی علامت ہے۔  اس عمارت کے تین اطراف میں پہاڑ تھے۔ یہاں پر ہماری ملاقات خانقاہ کے منتظم راہب سے کرائی گئی۔ جنہوں نے ہمیں بڑے مہذب انداز میں خوش آمدید کہا۔ جو مجھے بہت اچھا لگا۔ اس عمارت کے صحن میں پانی کا ایک تالاب تھا جس میں سیاح بالخصوص خواتین سکے پھینک رہی تھیں۔ نوجوان لڑکیاں اچھے جیون ساتھی کے لیے دعا کر رہی تھیں جبکہ نوجوان لڑکے وہیں ادھر ادھر اشاروں کناوں سے جیون ساتھی یا پھر کم از کم اس سیاحت کا ساتھی تلاش کر رہے تھے۔ یہ عمارت 15 صدیاں گزرنے کے باوجود انتہائی مضبوط اور اتنی ہی خوبصورت نظر آرہی تھی جتنی کہ اس کو آنا چاہیے تھا۔ میں نے صحن میں لگے چشمے سے پانی کی ایک بوتل بھرئی اور ہاتھ میں لیے عمارت کے اندورنی کمروں میں گھس گیا۔

 

بعض کمروں میں موم بتیاں جل رہی تھیں۔ دیواروں پرمصلوب پاک میسح اور ان کے حاواریوں (ساتھیوں) کی مختلف تصاویر آوایزں تھیں۔ جن پر سریانی زبان میں مختلف قسم کی تحریریں لکھی ہوئیں تھیں۔ یہیں پر انجیل کا قدیم ترین نسخہ بھی تھا۔ میں بھی تھوڑی دیر کے لیے ان راہبوں کے مزارات پر گیا جن کی قبروں کے اردگرد مختلف قسم کے پھول اور جڑی بوٹیاں اگ گئیں تھیں۔ زائرین کی بڑی تعداد مسلم ہونے کی وجہ سے وہ دعا کی بجائے محض تصاویر بنانے میں ہی مگن تھے۔ میں نے ساتھ کھڑے اپنے ہندوستانی دوست عتیق الرحمن سے کہا کہ دیکھیں جب کوئی قوم کسی جگہ سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے تو وہاں مدفون ان کے بزرگوں کی قبریں بھی فاتحہ اور دعائوں سے محروم ہو جاتیں ہیں۔ ” سامنے دیکھیں ! بالکل ایسا ہی لگ رہا ہے جیسے ہم ہندوستان کے کسی ولی یا پیر کے مزار پر کھڑے ہیں اور عورتیں وہاں اپنی دل کی مرادیں پانے کے لیے دعا کر رہی ہیں” عتیق نے سامنے کھڑے چند لڑکیوں کو ان مزارات کے سامنے دعا کرتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ میں نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور ہم عمارت کے مزید حصوں میں گھومنے لگے۔  مجھے اس عمارت کی سٹرھیاں بہت خوبصورت اور سلیقے سے بنی ہوئی لگیں۔ اس واسطے میں کچھ دیر ان سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔ جس کے اوپر خانقاہ کی دیواروں کا سایہ پڑ رہا تھا جو اب میرے اور سورج کے درمیان حائل ہو چکا تھا۔ میں سایہ میں بیٹھا ان گزرتے ہوئے سیاحوں کی ٹولیوں کو دیکھر کر سوچتا رہا کہ دوسرے ادیان کی عمارتوں کو گرانے سے نہیں بالکل ان کی حفاظت کرنے سے انسان زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ قبل اس کے کہ میں اس پر مزید سوچتا ہماری گائیڈ کی زور دار آواز گاڑی کی جانب بلا رہی تھی۔

غفلت دل سے ستم گذریں ہیں سو مت پوچھو

قافلے چلنے کو تیار ہیں ہم خواب میں ہیں

ہم بھی اس شہر میں ان لوگوں سے ہیں خانہ خراب

میرؔ گھر بار جنھوں کے رہ سیلاب میں ہیں

یہاں سے نکلنے کے بعد ہماری گاڑی ایک میدان کے باہر جاکر رکی۔ اندر بازار کی تنگ گلیوں میں داخل ہوئے جہاں ہمارے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہاں بھی گلیاں بے ہنگم، غیر ترتیب اور سڑکیں ٹوٹ پوٹ کا شکار تھیں۔ بازار میں ایک چھوٹے سے ریسورنٹ میں دوپہر کا کھانا کھایا۔ میں نے یہاں بھی کباب اور دونر (شوارما) کھایا ایک گلاس لسی کا چڑھایا اور ساتھ ہی بنی مسجد میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی ہی ادا کی۔ مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد واپس گاڑی میں بیٹھ گئے اور زنجیریہ مدرسہ کی جانب چل پڑے.

Read Previous

نائب وزیر سیاحت و ثقافت ڈاکٹر سردار چام سے انقرہ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر یوسف جنید کی ملاقات

Read Next

Leave a Reply