turky-urdu-logo

سفر نامہ بامیان ،تیسری اور آخری قسط

ہم صدیوں پرانی تاریخ میں گم تھے کہ ہمارے میزبان جو پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں ہمیں اپنے کسی دوست کے فارم ہاؤس باغ شاہ فولادی کے بارے میں آگاہ کر رہے تھے کہ جو  شہر کے مضافات میں واقع ہے۔

کچھ دیر کے لیے وہاں پر آرام کیا جائے، ہمیں ان کی یہ آفر اس لیے اچھی لگی کہ ڈاکٹر صاحب ہمیں چلا چلا کر ہماری ٹانگوں کا امتحان لیے رہے تھے اور مجھ سے راستے میں میری روزانہ ورزش کے بارے پوچھ گچھ بھی کررہے تھے کہ جو لوگ روزانہ ورزش کرتے ہیں ان کو ڈاکٹرز کی ضرورت پیش نہیں آتی.

راستے میں وہ ہمیں بامیان شہر کے معروف ہسپتال جو افغانستان کی سطح پر ایک ماڈرن ترین ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے اور آغا خان فاؤنڈیشن کے زیر سرپرستی میں خدمات سرانجام دیں رہا ہے وہ دکھایا ،اس کے علاوہ ایک اور ہسپتال جس کے باقی مانده کام ابھی اسلامی جمہوریہ ایران کے تعاون سے آخری مراحل میں ہے دور سے اس کا بھی درشن کروایا اس کے علاوہ بامیان شہر میں ایک چھوٹا ہوائی اڈہ بھی ہے جس میں چھوٹے بوٸینگ جہازوں کی آمد رفت ہوتی ہے وہ بھی دیکھایا اس کے علاوہ گورنر ہاؤس اور ایک ماڈرن سوسائٹی بھی دیکھاٸی.

بامیان کے ایلیٹ کلاس زیادہ تر آسٹریلیا، جرمنی اور کینیڈا میں آباد ہیں اس کے علاوہ اپر مڈل کلاس کابل شہر میں بستے ہیں ایجوکیشن شرح بھی اچھی ہے، نرم مزاج لوگ ہے کھانے پینے کے حوالے سے ہمیں اندازہ اس لئے نہیں ہوا کہ ہمارے میزبان ڈاکٹر صاحب نے ہمارا شیڈول اتنا ٹاٸٹ بنایا ہوا تھا کہ ہم ریسٹورنٹ میں نہ جا سکے ہمیں اتنے دنبوں کا تازہ گوشت کھلایا کہ آخری دن ہم ان کے مریض بن گئے

ہم مصروف دن گزارنے کے بعد میزبان کے مہمان خانے میں واپس آ چکے تھے جہاں پر ایک پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا گپ شپ کا سلسلہ افغانی قہوے کے ساتھ چلتا رہا اور پھر جب رات کافی ہوٸی ،تھکاوٹ بھی کافی ہونے کی وجہ ہم سب پرسکون نیند کی وادیوں میں چلے گئے صبح نماز کے لئے ہم اٹھے نماز کے بعد ہم نے اگلے سفر کے لئے اپنی گاڑیاں سٹارٹ کردی احتیاطی تدابیر کے پیش نظر میں نے 38 لیٹر پٹرول مزید ڈلوایا میں سوچتا رہا کہ بامیان شہر سے بند امیر جھیل تک کا راستہ شاید کچا ہوگا لیکن سڑک بین الاقوامی سطح کی پکی سڑک موجود تھی البتہ کچھ کلومیٹر سڑک کچی تھی یہ سفر تقریبا 3 سے 4 گھنٹے تک ہے

بند امیر جھیل بامیان

بند امیر جھیل بامیان کے ضلع "یاکاؤلنگ” میں ہے، یہ قدرتی جھیل دور سے ایک خوبصورتی کا شہکار ہے جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے.یہ چھوٹی بڑی چھے جهیلوں پر مشتمل ہے جن میں بند ذولفقار، غلامان، بند پنیر، پودینه، قنبر و ہیبت ایک کنارہ جو غلامان کے نام پر ہے سوکھ گیا ہے اور اس میں فلحال پانی موجود نہیں ہے لیکن باقی پانچ جھیلوں میں آپ کو نیلے رنگ کا شفاف پانی نظر آتا ہیں

جھیلوں کی گہرائی 64 میٹر بتائی گئی ہے۔ یہ جھیلیں بامیان کے مغرب میں کابل شہر سے 75 کلومیٹر اور ضلع "یکاولنگ” سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر ہندوکش اور بابا کے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔

میں نے دنیا کے کچھ ممالک کی سیاحت کی ہے اور حیرت انگیز طور پر ایسی دلکشی اور دلرباٸی کسی جھیل میں نہیں دیکھی یہ جھیلیں انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔

ہمارے پلان کے مطابق صرف 5 گھنٹے تک ہمیں رکنا تھا لیکن درحقیقت یہ مقام ایک دو دن گزارنے کے لیے ہے اگر آپ کے پاس خیمے ہو تو سونے پہ سہاگا یہاں کیمپنگ میں تاروں بھری رات آپ کی زندگی کی حسین رات ہوسکتی ہے.

ان قدرتی آبشاروں نے مجھے ترکیہ کی یاد تازہ کرا دی، میں جو اپنے آپ کو ماہر تیراک سمجھتا ہوں جون کے مہینے میں پانی میں صرف ایک ڈبکی ہی لگا سکا پانی نہایت ٹھنڈا تھا جس کی وجہ سے تیراکی نہ کر سکا جھیلوں کی خوبصورتی اور پرسکون ماحول کو دیکھ کر دل تو کر رہا تھا کہ جھیلوں کے کنارے تنہائی میں بیٹھ کر مصروف زندگی سے کچھ وقت کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لوں

بس زندگی کی دوڑ ہمیں ایسے مواقع کم ہی فراہم کرتی ہے ہمیں ایک دفعہ پھر پرتکلف ناشتہ فراہم کیا گیا اور ڈاکٹر صاحب بتارہے تھے کہ شام کو تازہ دنبے کے کوشت اور جھیلوں کے تازہ مچھلی کے لیے جتنا اپنے آپ کو تھکا سکتے ہیں تھکا لیں تاکہ اچھے کھانا کھایا جاسکے اس ہدایات کی روشنی میں ہم نے کشتی رانی کا فیصلہ کیا جس کے لیے بند امیر جھیل میں پیڈل کشتی جو 4 بندوں کے لیے تھی ایک گھنٹے کے لئے کرایہ پر لی جس کے لئے ہم نے 400 افغانی جو تقریبا 4 ڈالر بنتے ہیں ادا کیے مجھے کشی کے لیے پیسے دیتے وقت میرا ایک کنجوس دوست یاد آیا جب وہ کبھی دو تین ڈالر کا خرچہ کرتا ہے تو پھر دوستوں کو بتاتا ہے کہ ان ہی خرچوں نے مجھے خراب کیا ہے پھر ہم دوست خوب ہنستے ہیں اس دوست کو سعچ کر لب بے اختیار مسکر اٹھے کشتی رانی آبشاروں اور قدرتی چشموں سے لطف اندوز ہوتے جب ٹائم دیکھا تو تقریبا 4 بج چکے تھے بند امیر جھیل کے پاس بھی ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کا ایک گیسٹ ہاؤس تھا جہاں پر ایک جوبصورت پارک بھی تھا ہم وہاں اچکے تھے۔

ہمارا کھانا تیار ہوچکا تھا درحقیقت میں ڈاکٹر صاحب نے ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو کنٹرول نہ کرسکا اور ٹکا کر کھانا کھایا رات کی تاریکی سے پہلے ہمیں بند امیر جھیل کو چھوڑنا تھا تو ہم تیزی کے ساتھ وہاں سے نکلے، ایک گاڑی میں خود ڈرائیو کررہا تھا، شام کی نماز ہم نے اسی ایریا میں ادا کی. شاید ہم رات کے 11 بجے واپس بامیان شہر پہنچ چکے تھے اگرچہ بند امیر میں بھی آپ کو ایورج ہوٹل مل سکتے ہیں جو ایک کمرے کا کرایہ تقریبا 12 ڈالر ہوتا ہے. ڈاکٹر صاحب کے مہمان خانے میں پہنچ کر میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور جلد سونے کی کوشش کرنے لگا اس لئے کہ اگلے دن ہم نے کابل شہر پہنچنا تھا اور کچھ سرکاری مصروفیات کے بعد عید کی چھٹیاں گزارنے تھی. رات کو زیادہ کھانے کی وجہ سے طبیعت خراب ہوگئی تھی رات تکلیف کے ساتھ گزاری اور صبح ڈاکٹر صاحب نے میڈسنز دیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کو کالج کے زمانے کے نخرے نہیں کرنی چاہئے۔

صبح نماز کے بعد ہلکے پلکے ناشتہ کے بعد ہم کابل شہر کی طرف رواں دواں ہوئے اور بامیان کو اس امید پہ چھوڑا کہ اگر زندگی رہی اور کبھی موقع ملا تو ایک دفعہ پھر ضرور چکر لگاو گا صحت کی خرابی نے مجھے راستے کی خوبصورتی سے زیادہ لطف اندوز ہونے نہیں دیا راستے میں موسم بھی قدرے گرم تھا ہم کابل شہر پہنچ گئے تھے اور پھر ہم لوگ اپنوں میں عید منانے آبائی علاقوں کی جانب چلے گئے .
اختتام سفر نامہ

Read Previous

ترکش ایبرو آرٹ سیکھنے کا سنہری موقع

Read Next

صدر ایردوان کی القدس سے محبت کے اعتراف میں ایک فلسطینی اسکوائر کا نام ایردوان اسکوائر رکھ دیا گیا

Leave a Reply