turky-urdu-logo

لیتھوانیا میں رمضان

تحریر: طاہرے گونیش

یہ ہمارا لیتھوانیا میں پہلا رمضان ہے۔ یہ پہلا رمضان ہے جس میں ہمیں کوئی اذان سننے کو نہیں ملی،نہ ہے آگے ملے گی۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں

تو یہاں کلیساؤں کی تو بہتات اتنی ہے کہ خود میری گلی کا نام ہی مقدس گلی ہے۔ جہاں بلا مبالغہ ایک درجن سے زائد چرچز صرف اسی گلی میں واقع ہیں۔ اور سب فن تعمیر اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایسے کہ عمارتوں کی دلہنیں کہلائی جا سکتی ہیں۔

یوں روز ہر گھنٹے بعد ان کلیساؤں سے گھنٹیاں بجنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔

اقبال کے شعر کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر غالب ثقافت نے مفتوح ثقافت کی اینٹ اینٹ سے بجا کر رکھ دی اور وہاں اپنی مذہبی و ثقافتی سرگرمیوں کا پرچار کیا اور بے شمار نقوش چھوڑے۔

اسی طرح یورپ میں بھی مسلمان کسی وقت غالب تھے۔ وہ یہاں بھی آئے۔ ترک تو سسلی تک گئے تھے۔ ترکوں کے کزنز تاتار یہاں غالب آگئے تھے۔ ان کی نسلیں اور ان کی قائم کردہ مسجدیں اب بھی یہاں آباد ہیں۔ اگرچہ دونوں پر مروز زمانہ نے کافی اثر کیا ہے۔

یہاں ویلنئیوس میں ایک تاتار گلی ہے۔ اس ملک میں قائم سبھی مسجدیں تاتاریوں نے بنائیں اور ترکوں نے اس کی تزئین و آرائش کی۔ مگر جب مسلمانوں کے ہاتھ سے فتح کا علم چھن گیا تو یہاں تمام چھوٹی بڑی مساجد کو کلیساؤں میں بدل دیا گیا۔ آیا صوفیہ کو مسجد کا درجہ دینے ہر واویلا کرنے والوں کو ایک وزٹ لیتھوانیا کا ضرور کرنا چاہیے جہاں مسجدوں کے نام و نشان مٹا دیے گئے ہیں اور وہاں بڑی شان سے کلیسائیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ کسی وقت میں یورپ کا یروشلم کہلائے جانے والا یہ شہر ویلنئیوس جس میں چالیس ہزار سے زائد یہودیوں کو کیمپس میں ڈال کر ہلاک کیا گیا جرمنوں کی خوشنودی کے لئے۔ ان کی بھی سو سے زائد کنیساؤں کو منہدم کرکے کلیساؤں میں بدل دیا گیا۔ تو اب ان سو کنیساؤں میں اگر ایک کنیسا باقی ہے باقی کی جگہ کلیساؤں نے لی ہے تو نہ یہودیوں کو حیران ہونا چاہیے نہ مسلمانوں کو۔کہ ہر غالب تہذیب ، مغلوب تہذیب کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے۔

رمضان کے حوالے سے ذکر کرنے سے قبل یہاں موجود مسلمانوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گی۔

یہاں اسلام تاتاریوں کے ساتھ داخل ہوا۔ جو اب لیتھوانیا کی کل آبادی کا ایک فی صد بنتے ہیں۔ اور یہ کسی بھی غیر عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ واضح رہے لیتھوانیا کی کل آباد 27 لاکھ کم و بیش ہے۔
تاتاریوں نے یہاں بڑے شہروں، ویلنئیوس، کاوونس اور کلائپیڈیا سمیت قصبوں اور دیہاتوں تک میں سو سے زائد مساجد تعمیر کیں۔ لیکن ان مساجد کو سوویت حکمرانوں نے مذہب بیزاری کے جذبے کے تحت فنا کر دیا، تباہ کر دیا۔ حتی کہ ویلنئیوس کی سب سے بڑی مسجد Lukiškes لوکیشکس کا بھی نام و نشان مٹا دیا۔ اس کے بعد ویلنئیوس میں تاحال نماز ادا کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے جسے مسجد کہا جائے۔البتہ ترکی نے ایک اسلامک سینٹر بنایا ہے۔ لیکن وہ اتنی گنجائش نہیں رکھتی کہ اس میں باجماعت نماز ادا کرنے والے تمام افراد سما سکیں۔ نتیجتا لوگ باہر سڑک پر نماز پڑھتے ہیں۔ اس منہدم مسجد کو پھر سے تاتاری کمیونٹی تعمیر کرنا چاہتی ہے مگر ویلنئیوس کی بلدیہ کو اجازت دینے میں کچھ تامل ہے۔ دست برد زمانہ سے جو چارمساجد محفوظ رہ سکیں ان میں سے تین اب دارالحکومت ویلنئیوس کے نواحی گاؤں میں ہیں۔ یہ مساجد لکڑی کی بنی ہیں۔

ایک مسجد نیمیژس nemežis نامی گاؤں جبکہ دوسری کیتوریاس دیشیمت keturiasdešimt نامی گاؤں اور تیسری مسجد رائی ژیائی raižiaiنامی گاؤں میں واقع ہے ،جہاں مسلمانوں کی تعداد نسبتا زیادہ ہے۔۔ جبکہ چوتھی بڑی اہم مسجد لیتھوانیا کے دوسرے بڑے شہر کاوونس میں واقع ہے۔ یہ مسجد لیتھوانیا میں خودمختاری کے جنگ کے زمانے میں 1930 میں * vytautas کی یاد میں بنائی گئی ۔ اس مسجد کا نام بھی vytautas ویاتاوتس مسجد ہے ۔ اس مسجد کی نئے سرے سے تزئین و آرائش ترکی کے ادارے TİKA نے کی ہے۔ اور اب مسجد نہایت شاندار حالت میں ہے۔
تاتاری مسلمان چودھویں صدی عیسوی میں یہاں *بادشاہ اعظم ‘ vytautas’ ویاتاوتس کی مدد سے آئے۔ اور ان کو ‘ لیپکا تاتاری’ کہا جاتا ہے۔

تاتاریوں کے اثر و رسوخ اور اسلام کے صوفی طرز کی تعلیمات کو دیکھتے ہوئے یہاں کے مقامی لیتھوانیین لوگ کافی تعداد میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
جبکہ کچھ لوگ تاتاری مسلمان پر یہ الزام دھرتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف نام کے مسلمان رہ گئے۔یعنی وہ کئی صدیوں اور نسلوں کے بعد بھی خود کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر نماز ،روزے، زکوۃ ،حج وغیرہ کا تکلف نہیں کرتے۔ میرے خیال میں یہ غلط قیاس ہے۔صرف اس وجہ سے کہ کوئی آپ کے مسلک کی پیروی نہیں کر رہا آپ اسے نام کا مسلمان نہیں کہہ سکتے۔

ایک نامعلوم تاتاری کچھ صدیاں قبل لیتھوانیا سے حج کرنے گیا تو اس نے واپسی پر ‘ رسالہ’ نامی ایک کتابچہ لکھا جس میں اس نے بیان کیا کہ کیسے باہر کے لوگ لیتھوانیین تاتاریوں کو ‘ کافر’ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ تاتاری اپنا صوفی سٹائل کا اسلام فالو کرتے ہیں۔ جس میں عربوں کی طرح بنیاد پرستی اور سخت نظریات و مشقیں نہیں ہوتیں۔ کیونکہ مقامی ثقافت زیادہ غالب ہے۔ ترک اور تاتاری سماج میں عورت کا جو کردار تھا اور ہے وہ عرب کے معاشرے سے بہت مختلف اور مضبوط اور مرد کے شان بشانہ ہے۔ یعنی اسے مرد سے حفاظت کے لیے کبھی اضافی کپڑے سے خود کو ڈھکنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ سکارف ویسے بھی مقامی ثقافت کا حصہ تھا وہ ویسا ہی رہا۔ یعنی عقیدے نے لوگوں کو ثقافت سے نہیں الگ کیا۔ جیسے دنیا کے دوسرے خطوں میں ہوا کہ لوگ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ عرب کے ثقافت کی پیروی کرنے لگے۔جس سے ان کے ہاں شناختی بحران کی خلیج پیدا ہوگئی۔

اب بات کرتے ہیں یہاں رمضان کی۔ تو جب اسلام آیا ،مسلمان آئے تو ظاہر ہے اذان نماز کے ساتھ روزہ بھی آگیا۔ زکوۃ، خیرات صدقات کا رواج بھی پڑا۔ پورے لیتھوانیا میں خا کر دارالحکومت ویلنئیوس میں حلال کھانے کے ریستوران موجود ہیں جو سینٹرل ایشیائی اور کچھ ہندوستانی لوگ چلاتے ہیں۔

حلال گوشت کی البتہ صرف ایک ہی دکان ہے۔ وہ بھی تمام مسلمانوں کو خدمات فراہم کرنے اور ان کی روزانہ کی حلالگوشت اور حلال اجزاء کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ناکافی ہے۔

یہاں تاتاریوں کے علاوہ دیگر مسلمان بھی بسلسلہ ملازمت یا تعلیم مقیم ہیں۔ جن میں ترک، عرب اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمان شامل ہیں۔ ترک ممالک میں ترکیہ، آذربائیجان، ازبکستان کرغزستان، قازقستان کے لوگ ایک نمایاں تعداد میں رہائش پذیر ہیں جبکہ عرب ممالک میں سوریا ، عمان، تیونس ، مراکش کے لوگوں کی بڑی تعداد۔ ہندوستان ،پاکستان، افغانستان کے لوگوں کی بھی ایک مناسب تعداد موجود ہے جو ظاہر ہے دیگر کمیونٹیز کی طرح بڑی اور نمایاں نہیں۔

اس حساب سے رمضان بھی ہر کوئی اپنے مقامی کلچر کے مطابق مناتا ہے۔ یعنی جیسے ہم ترک وزارت مذہبی امور کے ترتیب دیے گئے امساکیہ کو فالو کرتے ہیں۔ اذان ہوتی نہیں لہذا وقت کا حساب ذہن میں رکھ روزہ سحر و افطار کرتے ہیں۔ کھجور ، دودھ دہی کی ڈشز، سلاد ،سوپ ، اور دیگر کھانے گھروں میں بنتے ہیں۔ باہر بس زندگی معمول کے مطابق ہے۔ یعنی رمضان کی روایتی رونقیں جو ہمیں اپنے مسلمان ممالک میں نظر آتی ہیں وہ یہاں ناپید ہیں۔

Read Previous

ترک وزیر دفاع کا عراق کے  جنوب مشرقی سرحد کا دورہ

Read Next

آذربائیجان کے صدرکی آصف علی زرداری کو صدر پاکستان بننے پر مبارکباد

Leave a Reply