
تحریر: اعظم علی
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر علامتی حملہ کرکے اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کی جو کوشش کی ہے وہیں اسرائیل نے بھی رسمی و علامتی کاروائی کرکے جان چھڑائی ہے۔
بنیادی فرق یہ ہے کہ ایران کو اسرائیل تک پہچنے کے لئے تین سو ڈرون و میزائل کا لشکر بھیجنا پڑا ۔۔۔ لیکن بقول ایران اسرائیل کی کاروائی نے صرف تین ڈرون بھیجے جنہیں “ناکام” بنادیا گیا ۔ جبکہ کہا جارہا ہے کہ درحقیقت اسرائیل نے اصفہان کے قریب ایران کے فضائی دفاعی نظام پر حملہ کر کے ریڈار کو نقصان پہنچایا ہے ۔
اسرائیل کا اتنا محدود حملہ اور ایران کا اسے مکمل ناکام کہہ کر نظر انداز کر دینا اس بات کی علامت ہے کہ ایران و اسرائیل دونوں ہی اب اس معاملے کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
اس کی ممکنہ وجہ یہ بھی ہے کہ ایران فضائیہ ، میزائل و ڈرون کے معاملے میں اسرائیل و اتحادیوں کی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس لئے اس حملے کی اہمیت کو کم کرکے معاملہ غتر بود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اسرائیل سے براہ راست لڑائی سے احتراز کرنا چاہتا ہے۔
ایران کے پاس اسرائیل کو جواب دینے کا آسان ہتھیار شام و لبنان کی سرحد پر ایرانی حمایت یافتہ گروہ بالخصوص لبنانی حزب اللہ ہے ، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایران وہ محاذ کھولنے میں دلچسپی نہیں رکھتا ورنہ اسرائیل کی مشکلات میں ٹھیک ٹھاک اضافہ ہو جاتا۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نیتین یاہو نے غزہ میں مظالم پر مغربی ممالک و امریکہ میں بڑھتی ہوئی بیچینی کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے ایران کے ساتھ محاذ کھولا ۔۔ جس کے نتیجے میں محدود طور پر کامیابی ہوئی کہ امریکی و یورپی اسٹیبلشمنٹ تو دوبارہ اپنی روایتی پرو اسرائیل پالیسی پر واپس آگئی ۔ امریکی اور یورپی رائے عامہ، جو اسرائیل کے خلاف ہو چُکی ہے، اسے تبدیل کرنے میں ناکامی ہوئی ہے
لیکن اہم ترین عنصر جس پر قریبی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ میدان جنگ نہیں بلکہ امریکی و یورپی رائے عامہ بالخصوص امریکی یونیورسٹی کے کیمپس ہیں ۔اسرائیل کی جان امریکی و یورپی حکومتی حمایت کے پنجرے میں ہے۔ اس پنجرے کی کمزوری اسرائیل کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ اور وہاں پر آثار اچھے نہیں ہیں ۔
یادرہے ویت نام کی جنگ کے خلاف مہم 1969/70 میں امریکی یونیورسٹی کے کیمپس اور معاشرے کے لبرل طبقات نے شروع کی تھی جس کے نتیجے میں آخر کار امریکہ کو ویت نام سے ذلت آمیز انداز سے نکلنا پڑا۔
امریکی سیاست میں ڈیمو کریٹک پارٹی ہمیشہ لبرل طبقات کی نمائندگی کرتی ہے۔ اب بھی یہی حال ہے امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کا لبرل و نوجوان طبقہ امریکہ کی پرو اسرائیل پالیسی سے سخت ناراض ہے ۔
آئندہ انتخابات میں صدر بائیڈن کو سابق صدر ٹرمپ کے مقابل ایک مشکل انتخاب کا سامنا ہے جس کے لیے اس کم از کم اپنی جماعت کی مکمل حمایت درکار ہے۔لیکن لبرل ڈیموکریٹ کی بغاوت، کے بعد اس کے لیے صورتحال مشکل ہوتی جارہی ہے۔
دوسری طرف امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپسز میں بھی اسرائیل مخالف جذبات جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے جارہے ہیں اور اس سے امریکہ کی (آئیوئ لیگ) جو امریکہ کی قدیم وموقر ترین آٹھ یونیورسٹیوں کو کہا جاتا ہے کی کولمبیا اور Yale یونیورسٹی بھی اس احتجاج سے متاثر ہوئے ہیں بلکہ کولمبیا یونیورسٹی میں سو سے زائد طلباء کی گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں ۔
جس طرح 1960/70 میں ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاج کو کمیونسٹ حامی ، روسی ایجنٹ اور غدار کہہ مسترد کردیا جاتا تھا بلکہ انہیں FBI کی زیر نگرانی بھی رکھا جاتا تھا۔ اسی طرح اب اسرائیلی مظالم کے خلاف تحریک اور امریکی کیمپسز میں بے چینی کو ابھی تک صدر بائیڈن اور امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اسرائیلی حامی طبقات “اینٹی سمیٹک” یعنی یہودی دشمن تحریک کے نام سے رد کررہے ہیں۔
ایسی تحاریک کے نتائج حاصل ہونے میں کم از کم ایک دہائی لگتی ہے۔ لیکن ویت نام کی جنگ اور فلسطین کے معاملے میں سب سے بڑا فرق یہ بھی ہے کہ وہاں لاکھوں امریکی فوجی لڑائی کا حصہ تھے اور پچاس ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے وہ تقریباً ہر گھر کا مسئلہ تھی، یہاں پر یہ عنصر موجود نہیں ہے سوائے مالی اور ساز و سامان کی امداد کے فلسطین و غزہ کی سرزمین سے امریکی فوجیوں کے لاشے نہیں آرہے ۔
اس لئے مزاحمت اور مخالفت نسبتاً کمزور سہی، پھر بھی ابتدائی مرحلے پر ہے ۔ دوسری طرف سوشل میڈیا کی اثر انگیزی ایک نیا عنصر بھی ہے جو اس دور میں موجود نہیں تھا ۔۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کہا جاسکتا ہے کہ فلسطینیوں کا شعب ابی طالب کا دور ختم ہونے کی علامات شروع ہو گئی ہیں ۔
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
لیکن بہار کے امکان روشن ہونے اور بہار کے جوبن پر آنے میں ۔۔۔۔ ہنوذ دلی دور است ۔۔۔صبر و ہمت ہی واحد ہتھیار ہے۔
﴿وَلا تَهِنُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾
"دل شکستہ نہ ہو اور غم نہ کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو” (آل عمران:139)