turky-urdu-logo

اسلامی اور روایتی بنکنگ میں ایک بُنیادی فرق

تحریر:محمد نذیر خان ، استنبول

( ایک گروپ  ڈسکشن   کی سرگذشت)

کنوینشنل فائنانشل سسٹم کے پاس سوائے قرضہ دینے کے کوئی دوسرا ٹول یا پروڈکٹ نہیں ہوتا، اگرچہ وہ  اس کا نام بدل کر کبھی  ہاؤس فائنانسنگ ، کار فائنانسنگ تو کبھی کوئی اور۔  کیونکہ 1929 کے معاشی بحران کے بعد امریکہ نے بینکنگ اور دیگر بزنس کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی تھی، جس کے نتیجہ میں کوئی بھی بنک رئیل اسٹیٹ، پراپرٹی وغیرہ کا مالک نہیں بن سکتا، اور اگر کہیں اس کو مالک بننا پڑجائے تو ایک مختصر مدت کے اندر اُسے وہ پراپرٹی، گھر، زمین، گاڑی وغیرہ  کی ( liquidation) کو سیال اثاثوں میں تبدیل کرنا ضروری ہوگا۔اسی کو بعض اہل علم Anglo-saxon یا امریکن بینکنگ ماڈل کا نام بھی دیتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا ماڈل جرمنی میں comprehensive banking (جامع بنکاری) کے عنوان سے متعارف ہُوا، اس ماڈل کے تحت بنکوں کو نہ صرف مختلف کمپنیوں کے حصے خریدنے کی اجازت ہے بلکہ وہ رئیل اسٹیٹ کے مالک بھی بن سکتے ہیں۔

ایک دوسری بات یہ ہے کہ کنوینشنل بنک اس بات کا بھی پابند ہے کہ وہ اپنے کلائنٹ کو اس کے سرمایہ اور انٹرسٹ دونوں پر یا صرف سرمایہ کی گارنٹی دیدے۔ دنیا میں امریکی ماڈل کو اپنانے والے بنک  اسی طریقہ کار ( National Bank Act of 1863) کے پابند ہیں۔ اس لئے وہ  صرف قرضہ میں ڈیل کرسکتا ہے۔ لہذا وہ آپ سے پیسہ لیکر دسرے کو دیگا، اس سے سود لے گا اور آپ کو اسی میں سےحصہ دیگا۔

خود پاکستان میں بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962 کے تحت بنکوں کیلئے تجارتی سرگرمیوں میں  مثلا خرید وفروخت میں حصہ لینے پر پابندی تھی۔ چنانچہ  بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962 پیرا گراف نمبر 9 میں ” Prohibition of trading” ( تجارت کی ممانعت ) کے عنوان کے تحت واضح طور پر لکھا ہے کہ :

Prohibition of trading. —Except as authorized under section 7, No banking company shall directly or indirectly deal in the buying or selling or bartering of goods or engage in any trade or buy, sell, or barter goods for others, otherwise than in connection with bills of exchange received for collection or negotiation.

[1] Dieterle, David A.; Simmons, Katherine M. (2014). Government and the Economy: An Encyclopedia. ABC-CLIO. pp. 249–250. ISBN 9781440829048. Retrieved 15 May 2016.

[2] Kahf, Monzer. Islamic finance contracts. Al Manhal, 2013.

[3] Ibid

[4] THE BANKING COMPANIES ORDINANCE, 1962 (LVII of 1962) p.11

لیکن بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1986 میں اس میں ترمیم کی گئی، جس کے تحت اب بینک اور کمپنیاں  تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔[1]  اس لئے جو  حضرات پاکستانی قانون  کے تحت  اسلامی  بنکاری     ممکن نہ ہونے کیلئے  بینکنگ  کمپنیز 1962 کا حوالہ دیتے ہیں، اُن کی رائے  دُرست  نہیں، کیونکہ اس شق میں ترمیم ہوچکی ہے۔واللہ اعلم

 

یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ  بنک تجارت کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے؟ تو اس کا سادھا سا جواب یہی ہے کہ چونکہ کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں کا امکان ہوتا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کبھی نقصان میں شرکت کو قبول نہیں کرتی۔ بلکہ وہ ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ اس کا ہینگ لگے نہ پھٹکڑی لیکن اس کو فائدہ ملتا رہے۔

ترقی  اسلامک بینکنگ    کی  فطرت    میں شامل  ہے!

مثال کے طور پر اگر آپ ایک کنوینشنل بنک کی فائنانشل سٹیٹمنٹ اور اسلامی بنک کی  فائنانشل سٹیٹمنٹ کا تقابل کریں ،  تو دونوں کے  فائنانشل سٹیٹمنٹ میں   یہ لکھا ہوا   ہوتا ہے کہ   بنک نے  رواں مالی سال  مثلا 2023 میں اتنی رقم  ہاؤس فائنانس  ، اتنی رقم  کار فائنانس  اور اتنی رقم  زراعت کیلئے دیدی ہے۔  تو بہت سارے لوگ کنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں کہ   جب دونوں بنکوں نے  ایک جیسی چیزیں کی ہیں تو فرق کہاں ہے؟

حالانکہ   اسلامی بنک میں مثلا 10 ہاؤس یا کار فائنانسنگ کا مطلب یہ ہے کہ ” حقیقت  میں 10 گاڑیوں، اور گھروں کی خرید وفروخت ہوئی ہے۔  لہذا دس گھروں یا گاڑیوں کی (consumption side) میں  طلب اور جگہ موجود ہے۔ اب جب یہ دس خالی جگہیں پر کی جائیں گی تو( production (side میں دس مزید گھروں یا گاڑیوں سے پُر کیاجائے گا.  ظاہرہے کہ گھر یا گاڑی کاغذ پر نقشہ اتارنا تو ہے نہیں، بلکہ   اس کیلئے  وسائل مثلا  بجلی، پانی، میٹریل، کاریگر اور مزدور درکار ہوں گے۔ اور اس سے کئی لوگوں کو روزگار ملے گا، لوگوں کو ہنر سیکھنے اور محنت کرنے کی ترغیب ملے گی۔  اسی سے حقیقی دولت کی پیدائش   real wealth creation ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2008 کے تباہ کن مالی بحران کے نتیجہ میں دنیا کے بڑے بڑے مالیاتی اداروں کی چولیں ہل گئیں، لہیمن برادرز(Lehman Brothers) جیسے ادارے بند ہوگئے، لیکن ان کے مقابلہ میں اسلامی بینک باوجود اپنی محدود قوت اور سرمایہ کے بہت ہی کم متاثر ہوئے۔ چنانچہ آئی ایم ایف کی رپورٹ میں لکھا ہے:

A new IMF study compares the performance of Islamic banks and conventional banks during the recent financial crisis and finds that Islamic banks, on average, showed stronger resilience during the global financial crisis.

[1] THE COMPANIES ORDINANCE, 1984 ee. p.11

آئی ایم ایف کی ایک نئی تحقیق جس میں حالیہ مالیاتی بحران کے دوران اسلامی بینکوں اور روایتی بینکوں کی کارکردگی کا موازنہ کیا گیا ہے، کے مطابق اسلامی بینکوں نے اوسطاً عالمی مالیاتی بحران کے دوران نسبتا زیادہ مضبوط رہے)

اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلامی بینکنگ ہمیشہ حقیقی مارکیٹ سے جُڑی رہتی ہے اور نفع ونقصان دونوں میں شراکت پر یقین رکھتی ہے۔ یاسلامی بنک    آپ کو کوئی حقیقی گھر، گاڑی وغیرہ بیچتا ہے، یا پھر  آپ کا شریک یا  منیجر بن کر کاروبار کرتا ہے۔جبکہ  روایتی بنک    ایک دفعہ قرضہ کے حصول ( جس کیلئے بنیادی رقم اور سودی کی واپسی کی یقین دہانی کروانی ہوتی ہے) کے بعد   بینک کی بلا سے آپ وہ پیسہ کہاں اور کیسے  استعمال کریں۔ یہی وجہ ہے روایتی بینکاری سے حقیقی دولت کی تخلیق (wealth creation) یقینی نہیں۔ کیونکہ قرضہ جو ایک ذمہ داری(liability) ہے کو ایک سے دوسرے کی طرف منتقل کرنے سے دولت کی تخلیق نہیں ہوسکتی۔ جبکہ اسلامی بنکنگ کی نیچر ہی الگ ہے۔ وہ Debt selling ( قرضہ کی خریدو فروخت نہیں) بلکہ creation کرتا ہے۔

یہاں  اس بات کی وضاحت بھی  کرنا چاہتاہوں کہ فی الحال  میرا  پاکستان کے کسی اسلامی  یا  روایتی بنک سے کوئی مالی مفاد وابستہ نہیں، اور نہ  ہی پاکستانی بنک کو میں  بطور  شریعہ ایڈوائز    کام کرتا ہوں ، لیکن   اتنی بات  یقین  سے کہہ سکتا ہوں  کہ آپ کو   اگر  کسی بنک میں کوئی جزوی خامی یا کمزوری  نظر آتی ہے  تو   اس  پر علمی انداز میں تنقید کریں، غلطیوں کی نشاندہی   کریں، متعلقہ   لوگوں تک پہنچائیں۔ لیکن   صرف اسلامی  کا لفظ  یا مفتی تقی عثمانی  صاحب   مد ظلہ  یا مدرسہ  کا نام سُنتے ہی کانوں سے دھواں ،  زبان سے شُعلے اور قلم سے   آگ برسانا علمی رویہ   تو کیا خاک ہوگا خود جناب کی صحت کیلئے  بھی مُفید نہیں۔

آخر میں  Health Encyclopedia کی ایک عبارت نقل کرنے کو جی چاہتا ہے، نہ جانے اس کا میرے کالم سے سے کوئی تعلق بھی ہے یا نہیں۔

“Envy and jealousy also add to stress and anger that are closely tied to several illnesses. Anger has been shown to be a risk factor for heart disease. Also, long-term stress harms the immune system and has been linked with some forms of cancer.”[1].

حسد ، جلن اور تناؤ کا باہم مربوط اور مضبوط رشتہ ہے۔ یہ غصے میں اضافہ کرتے ہیں جس کا کئی بیماریوں سے گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ غصہ کا عنصر دل کی بیماری کے لیے ایک خطرہ ہے۔ نیز، طویل مدتی تناؤ مدافعتی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے اور اسے کینسر کی کچھ شکلوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔

تضحیک و التفات میں رہنے دے کچھ تضاد

یوں دیکھ کر نہ مسکرا، زرا مسکرا کے دیکھ!

 

Read Previous

کچھ ترک سلاطین شعراء کے نام اور تخلص

Read Next

وزیر خارجہ حاقان فیدان کا اپنے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ,وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد

Leave a Reply