جمعہ کو فیس بک کے سی ای او مارک زکربرگ نے کہا ہے کہ وہ فیس بک کی پالیسی میں تبدیلیوں پر غور کریں گے جس کی بدولت کمپنی کو حالیہ پولیس کی تحویل میں ہوتے ہوئے ایک نہتے سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ پوسٹس چھوڑنے پر مجبور ہوئی تھی۔
جبکہ فیس بک اسٹاف کے ممبران چند دن بعد ملازمت سے سبکدوش ہونے لگے ان کا کہنا تھا زکربرگ نے فیس بک پوسٹ کی پالیسی میں مخصوص تبدیلیوں کا وعدہ نہیں کیا ، کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ٹرمپ کو چیلنج نہ کرنے کے لئے نئے نئے بہانے ڈھونڈتے رہے
ایک بیان میں زکربرگ نے ٹرمپ کے حالیہ بیان when the looting starts, the shooting starts.” کو فیس بک سے نہ ہٹانے کے اپنے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا میں جانتا ہوں آپ میں سے بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کی پوسٹ کو کسی نہ کسی طرح ہٹانا چائیے تھا۔
انہوں نے کہا ، “ہم اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے جارہے ہیں جس میں بحث و مباحثے اور ریاستی طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھیں گے آیاں ہمیں کوئی ترمیم لانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم خلاف ورزی کرنے یا جزوی طور پر خلاف ورزی کرنے والے سے نمٹنے کے لئے ممکنہ اختیارات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
زکربرگ نے کہا کہ فیس بک اس فیصلے کے بارے میں شفاف ہو گا کہ آیاں پوسٹوں کو ختم کرنا ہے ، ایسی پوسٹس پر پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہے جو ووٹروں کو دبانے کا سبب بن سکتی ہیں اور اہم لیفٹیننٹس کی سربراہی میں نسلی انصاف کو آگے بڑھانے کے لئے سافٹ ویئر تیار کرنے کے خواہاں ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز میں عملے کی ایک میٹنگ میں ، ملازمین نے ٹرمپ کی پوسٹ پر زکربرگ کے موقف پر سوال اٹھایا۔
فیس بک میں کنٹرولنگ پوزیشن کے حامل زکربرگ نے کہا البتہ انہیں ٹرمپ کا بیان شدید قابل مزمت لگا لیکن انہوں نے کمپنی کی تشدد پر اکسانے کی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کی۔
فیس بک کی پالیسی یا تو کسی پوسٹ کو ختم کرنے یا کسی دوسرے اختیارات کے بغیر چھوڑنے کی ہے لیکن اب زکربرگ نے کہا ، دوسرے آپشنز پر بھی غور کیا جائے گا
تاہم انہوں نے مزید کہا ، “مجھے فکر ہے کہ اس نقطہ نظر سے ہمیں ایسے مواد پر ادارتی نگاری کا خطرہ لاحق ہے جو ہم پسند نہیں کرتے چاہے وہ ہماری پالیسیوں کی خلاف ورزی نہ کررہا ہو۔